کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ101۔102
39۔ مرے وطن ! مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے
احمدندیم قاسمی ایک بزرگ شاعر اور بہت بڑے ادیب ہیں۔ مگر اپنے وطن کے لئے دعا کے
وقت کبھی انہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں پر
جو ظلم ہو رہے ہیں ان کے خلاف بھی آواز اٹھائیں۔ اس لئے میں نے ان کی ایک نظم کی تضمین
کہی ہے۔ اگران کو اس سے اختلاف ہو تو میں مجبور ہوں۔
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو
سوائے اس کے کہ وہ شخص احمدی کہلائے
تو سانس لینے کی بھی اس کو یاں مجال
نہ ہو
وہ سبزہ زاروں میں ہو سب سے سبزتر پھر
بھی
رگیدا جائے اگرچہ وہ پائمال نہ ہو
چمن میں وہ گلِ رعنا جو خاک سے اٹھے
اکھاڑنے میں اسے تم کو کچھ ملال نہ
ہو
وہ پھول ہو کے بھی آنکھوں میں خار سا
کھٹکے
تو ایسا زخم لگاؤ کہ اندمال نہ ہو
وہ لاکھ علم و عمل کا ہو ایک اوجِ کمال
فقط وہ غازئ گفتار و قیل و قال نہ ہو
مگر سب اہل وطن یہ بھی سوچ لیں کہ کہیں
لباس تقویٰ میں لپٹی ہوئی یہ کوئی چال
نہ ہو
میرے وطن! مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے
کہ اس پہ ثبت ہے عبدالسلام نام کا چاند
اسے ڈبو کے کوئی اور اچھال کام کا چاند
تو یہ کرے تو کبھی تجھ پہ پھر زوال
نہ ہو
ہر ایک شہری ہو آسودہ ہر کوئی ہو نہال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں