صفحات

بدھ، 30 مارچ، 2016

31۔ اجنبی غم

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ81۔84

31۔ اجنبی غم


یہ نظم کالج کے زمانہ میں مری میں کہی تھی لیکن اس وقت نامکمل چھوڑ دی گئی تھی۔ اس کے بعد ١٩٩٣ء میں بعض اور بند شامل کر کے اسے مکمل کیا گیا۔

یہ پراسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم
چھا گیا روح پہ اک جذبہ مبہم بن کر
یہ فضاؤں میں سسکتا ہوا احساس الم
دیدۂ شب سے ڈھلکنے لگا شبنم بن کر

جانے یہ دکھ ہے تمہارا کہ زمانے کا ستم
اجنبی ہے ، کوئی مہمان چلا آیا ہے
اپنے چہرے کو چھپائے زِ نقاب شب غم
جان ہے اس سے نہ پہچان ، چلا آیا ہے

آنکھ ہے میری کہ اشکوں کی ہے اک راہگذار
دل ہے یا کوئی مہمان سرائے غم و حزن
ہے یہ سینہ کہ جواں مرگ امنگوں کا مزار
اک زیارت گہِ صد قافلہ ہائے غم و حزن

یا ترے دھیان کی جوگن ہمہ رنج و آزار
خود چلی آئی ہے پہلو میں بجائے غم و حزن
رات بھر چھیڑے گی احساس کے دکھتے ہوئے تار
ایک اک تار سے اٹھے گی نوائے غم و حزن

دل جلے جاتا ہے جیسے کسی راہب کا چراغ
ٹمٹماتا ہو کہیں دور بیابانوں میں
قافلے درد کے پا جاتے ہیں منزل کا سراغ
اک لرزتی ہوئی لو دیکھ کے ویرانوں میں

یہ بھی شاید کوئی بھٹکا ہوا راہی غم ہے
دو گھڑی قلب کے غم خانے میں سستائے گا
اوٹ سے تیرگئ یاس کی جب وقتِ سحر
کرن امید کی پھوٹے گی ، چلا جائے گا

خانہ دل میں اتر کر یہ فقیروں کے سے غم
نالہ شب سے نصیب اپنا جگا لیتے ہیں
دل کو اک شرف عطا کر کے چلے جاتے ہیں
اجنبی غم مرے محسن مرا کیا لیتے ہیں

کوئی مذہب ہے سسکتی ہوئی روحوں کا نہ رنگ
ہر ستم دیدہ کو انسان ہی پایا ہم نے
بن کے اپنا ہی لپٹ جاتا ہے روتے روتے
غیر کا دکھ بھی جو سینے سے لگایا ہم نے

کوئی قَشقہ ہے دکھوں کا نہ عمامہ نہ صلیب
کوئی ہندو ہے نہ مسلم ہے نہ عیسائی ہے
ہر ستم گر کو ہو اے کاش یہ عرفان نصیب
ظلم جس پر بھی ہو ہر دین کی رسوائی ہے

بادۂ عشق ہے درمان ، اگر ہے کوئی
مت ہمیں چھوڑ کے جا ساقی کہ غم باقی ہیں
ہم نہ ہوں گے تو اُجڑ جائے گا مے خانۂ غم
درد کے جام لنڈھا ساقی کہ ہم باقی ہیں

سب جہانوں کے لئے بن کے جو رحمت آیا
ہر زمانے کے دکھوں کا ہے مداوا وہی ایک
اس کے دامن سے ہے وابستہ کُل عالم کی نجات
بے سہاروں کا اب ملجا و ماویٰ وہی ایک
(صَلِّی اللہُ عَلَیہ وعلیٰ آلِہ وسَلَّم)

جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٣ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں