کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ116۔119
48۔ دل شوریدہ کا خواب
تم
نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا
کاش
یوں ہوتا تو مَیں اتنا نہ تنہا ہوتا
لب
پر آجاتا کبھی دل سے اچھل کر مرا نام
تو
مَیں اس جنبشِ لب کی طرح یکتا ہوتا
دل
میں ہر لحظہ دھڑکتا یہ تمہارا احساں
اس
کی ہر ضرب سے سینے میں اجالا ہوتا
ظلمتیں
دل کی اسی نور سے ہوتیں کافور
نور
یہ کتنا مدھر ، کتنا رُوپہلا ہوتا
جب
تصور کے نہاں خانہ میں ہنگامۂ عشق
ہم
بپا کرتے تو کچھ اُس کا نہ چرچا ہوتا
جانتا
کون ہمارے دل ِشوریدہ کا خواب
دیکھتا
کون جو ہم دونوں نے دیکھا ہوتا
یوں
ہی چھپ چھپ کے ملا کرتے پسِ پردۂ دل
دل
ہی دل میں کسے معلوم کہ کیا کیا ہوتا
یوں
ہی بڑھتی چلی جاتی رہ و رسم ِالفت
ہم
نے جی کھول کے اک دوجے کو چاہا ہوتا
دل
دھڑکتے جو کبھی راہ میں ملتے سر عام
بے
دھڑک پیار کے اظہار کا دھڑکا ہوتا
مجھ
سے تم نظریں چرا لیتے بدن لجا کر
پھر
مجھے دیکھتے ایسے کہ نہ دیکھا ہوتا
یہ
ادا دل کو لبھاتی تو ستاتی بھی بہت
سوچتا
تم نہ مرے ہوتے تو پھر کیا ہوتا
میرے
سب خواب بکھر جاتے سرابوں میں ۔ بس ایک
ہر
طرف پھیلا ہوا عالمِ صحرا ہوتا
اس
تصور سے کہ تم چھوڑ کے جاتے تو سَدا
دل
محبت کی اک اک بوند کو ترسا ہوتا
آنکھ
سے میری برستا وہ لہو کہ پہلے
شاید
ہی اور کسی آنکھ سے برسا ہوتا
ڈوب
جاتا اُسی خونابہ میں افسانۂ عشق
آنکھ
کھلتی تو بس اک خواب سا دیکھا ہوتا
بہہ
چکا ہوتا مری آنکھ سے سیلاب بلا
نہ
وہ موجیں کہیں ہوتیں نہ وہ دریا ہوتا
چھا
چکی ہوتی جدائی کی سسکتی ہوئی رات
مجھے
بانہوں میں شب ِغم نے لپیٹا ہوتا
چارسو
تم نہ دکھائی کہیں دیتے ۔اک میں
اپنے
ہی اشکوں میں بھیگا ہوا لیٹا ہوتا
دور
اک عارضِ گیتی پہ ڈھلکتا ہوا اشک
دیدۂ
شب سے اُفُق پار چھلکتا ہوتا
اُس
میں ہر لحظہ لرزتا ہوا ، بجھتا ہوا عکس
اک
حسیں چاند سے چہرے کا جھلکتا ہوتا
کس
نے لوٹا ہوا ہوتا مرے چندا کا قرار
کروٹیں
کس کی جدائی میں بدلتا ہوتا
یاد
میں کس کی وہ آفاق پہ بہتا ہوا حُسن
نت
نئی دنیا ۔ نئے دیس میں ڈھلتا ہوتا
عمر
بھر مَیں بھی تمہیں ڈھونڈتا بے سُود اگر
عالمِ
خواب مرا ملجأ و ماویٰ ہوتا
اب
علاج ِغم تنہائی کہاں سے لاؤں
تم
کہیں ہوتے تو اس غم کا مُدَاوَا ہوتا
اب
کسے ڈھونڈوں تصور میں بسانے کے لئے
چاند
کوئی نہ رہا اپنا بنانے کے لئے
میرے
اس دنیا میں لاکھوں ہیں مگر کوئی نہیں
میرا
تنہائیوں میں ساتھ نبھانے کے لئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں