صفحات

جمعرات، 31 مارچ، 2016

29۔ خدا کے سپرد

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ77۔78

29۔ خدا کے سپرد


اس نظم کا پہلا مصرعہ آصفہ بیگم کی زندگی ہی میں ایک معمولی فرق کے ساتھ رؤیا میں زبان پر جاری ہوا تھا۔ اس پر نظم شروع کی تو ان کی زندگی میں صرف دو شعر ہو سکے تھے۔ باقی نظم ان کی وفات کے بعد مکمل کی ہے۔ اس مناسبت سے پہلے مصرعہ کو کچھ تبدیل کرنا پڑا یعنی پہلے یہ مصرعہ یوں تھا۔

ع     تری بقا کا سفر ہے قدم قدم اِعجاز

تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اِعجاز
بدن سے سانس کا ہر رشتہ دم بہ دم اِعجاز

ترا فنا کے افق سے پلٹ پلٹ آنا
دعا کے دوش پہ نبضوں کا زیر و بم اِعجاز

تھا اک کرشمۂ پیہم ترا دلِ بیمار
دکھایا ہو گا کسی دل نے ایسا کم اِعجاز

نحیف جان ، بہت بوجھ اٹھا کے چلتی رہی
ہر ایک نقشِ قدم پر تھا مرتسم اِعجاز

اسی کا فیض تھا ورنہ مری دعا کیا تھی
کہے سے اس کے دکھاتا تھا میرا غم اِعجاز

جب اُس کا اذن نہ آیا ، خطا گئی فریاد
رہی نہ آہ کرشمہ ، نہ چشم نم اِعجاز

غِنا نے اس کی جو عرفان بندگی بخشا
نہیں تھا وہ کسی جُود و عطا سے کم اِعجاز

بچشم ِنم تمہیں سمجھایا ، بس خدا کے لئے
دکھاؤ نا ، سر ِتسلیم کر کے خم اِعجاز

یونہی شماتت اعدا سے مت ڈرو بی بی!
ہمارے حق میں دکھائیں گے یہ ستم اِعجاز

ہو موت اس کی رضا پر ، یہی کرامت ہے
خوشی سے اُس کے کہے میں جو کھائیں سَم ، اِعجاز

وہیں تمہاری انا کا سفر تمام ہوا
حیات و موت وہیں بن گئے بہم اِعجاز

نحیف ہونٹوں سے اُٹھی ندائے استغفار
نوائے توبہ تھی اللہ کی قسم اِعجاز

مجھے کبھی بھی تم اتنی نہیں لگیں پیاری
وہ حسن تھا ملکوتی ، وہ ضبط ِغم اِعجاز

اُسی کی ہو گئیں تم ، اُس کے امر ہی سے تمہیں
امر بنانے کا دکھلا گئی عدم اِعجاز

کبھی تو آ کے ملیں گے ، چلو ، خدا کے سپرد
کبھی تو دیکھیں گے احیائے نو کا ہم اِعجاز

1992ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں