کلام
محمود صفحہ91
49۔
غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا
پڑے ہمیں
غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے
ہمیں
اغیار کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے ہمیں
اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اےخدا
جس میں کہ تیرا نام چھپانا پڑے
ہمیں
منبر پہ چڑھ کہ غیر کہے اپنا مدعا
سینہ میں اپنے جوش دبا نا پڑے ہمیں
کیا کیسا عدل ہےکہ کریں اور، ہم
بھریں
اغیار کا بھی قضیہ چکا نا پڑے ہمیں
سن مدعی نہ بات بڑھا تا نہ ہو یہ
بات
کوچہ میں اس کے شور مچا نا پڑے
ہمیں
اتنا نہ دور کر کہ کٹے رشتہءوداد
سینہ سے اپنے غیر لگا نا پڑے ہمیں
پھلائیں
گے صداقتِ اسلام کچھ بھی ہو
جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جا نا پڑے
ہمیں
پروا
نہیں جو ہاتھ سے اپنے ہی اپنا آپ
حرفِ غلط کی طرح مٹا نا پڑے ہمیں
محمود
کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار
روئے زمیں کو خواہ ہلا نا پڑے ہمیں
اخبار الفضل جلد 7 ۔29اپریل 1920ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں