کلام
محمود صفحہ115
66۔ میں تو کمزور تھا اس واسطے آیا نہ گیا
میں تو کمزور تھا اس واسطے آیا نہ گیا
کس طرح مانوں کہ تم سے بھی بلایا نہ
گیا
نفس کو بھولنا چاہا پہ بھلایا نہ گیا
جان جاتی رہی پر اپنا پرایا نہ گیا
عشق اک راز ہے اور راز بھی اک پیارے
کا
مجھ سے یہ راز صدافسوس چھپایا نہ گیا
دیکھ کر ارض وسما بارِ گرانِ تشریع
رہ گئے ششدر و حیران اٹھا یا نہ گیا
ہم بھی کمزور تھےطاقت نہ تھی ہم میں
بھی کچھ
قول آقا کا مگر ہم سے ہٹا یا نہ گیا
کس طرح تجھ کو گناہوں پہ ہوئی یوں جرأت
اپنے ہاتھوں سے کبھی زہر تو کھا یا
نہ گیا
کفر نے لاکھ تدابیر کیں لیکن پھر بھی
صفحۂ دہر سے اسلام مٹا یا نہ گیا
ملتا کس طرح کہ تدبیر ہی صائب نہ ہوئی
دل میں ڈھونڈانہ گیا غیر میں پا یا
نہ گیا
اس کے جلوے کی بتاؤں تمہیں کیا کیفیت
مجھ سے دیکھا نہ گیا تم کو دکھا یا
نہ گیا
جاہ وعزت تو گئے،کبر نہ چھوٹامسلم!
بھوت تو چھوڑ گیا تجھ کوپہ سایہ نہ گیا
چین سے بیٹھتے تو بیٹھتے کس طرح سے
ہم
دوربیٹھا نہ گیا پاس بٹھا یا نہ گیا
جانِ محمود ترا حسن ہے اک حسن کی کان
لاکھ چاہا پہ ترا نقش اڑا یا نہ گیا
اخبار الفضل جلد 12 ۔17اگست 1924ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں