صفحات

ہفتہ، 19 دسمبر، 2015

چوہدری محمدعلی مضطرؔعارفی

پروفیسر چوہدری محمدعلی مضطرؔعارفی

آپ1917ء کو ضلع فیروز پور (مشرقی) پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہورسے ایم۔ اے کیا۔ چھوٹی عمر میں احمدیت سے تعارف ہوا۔ زمانہ طالبعلمی میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب بخارا کے اسلام کے دفاع میں ایک پنڈت سے کیے گئے   مناظرے سے آپ پر احمدیت کا اچھا اثر پڑا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران محترم قاضی محمد اسلم صاحب جو وہاں پروفیسر تھے صدر شعبہ فلاسفی بھی تھے ان کی شخصیت اور اوصاف حمیدہ اور دعوت الی اللہ کی وجہ سے 1941ء میں نوجوانی میں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ آپ نے 9اپریل 1944ء کو وقف زندگی کی درخواست دی ۔اسی سال جب قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام ہوا تو آپ کو اس موقر تعلیمی ادارے کے بانی اساتذہ میں شامل ہونے کی سعادت ملی اور کالج میں فلسفہ، نفسیات اور انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر رہے۔ بعد میں اسی کالج کے پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوئے۔

آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی طرح آپ حضور کے غیرممالک کے سفروں میں بھی ساتھ رہے۔ 1984ء میں آپ کا تقرر جامعہ احمدیہ میں بطور انگریزی کے پروفیسر کے ہوا جہاں آپ نے شعبہ انگریزی کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح اس دوران میں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ  کی کتب کے تراجم کی سعادت بھی آپ کو ملی۔ جب شعبہ وقف نو وکالت وقف نو کا قیام ہوا تو چوہدری محمد علی صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلا وکیل وقف نو مقرر فرمایا پھر 1998ء میں تراجم کے کام کی وسعت کے پیش نظر آپ کو وکیل التصنیف مقرر فرمایا گیا۔ آخر دم تک آپ اس خدمت پر مامور رہے۔ آپ نے سلسلے کی بہت سی کتب کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی توفیق پائی۔ اسی طرح آپ کو تقریباً 71سال سلسلے کی خدمات کی توفیق ملی۔

آپ ایک طویل عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کی Senate اکیڈیمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز (نفسیات) کے ممبر رہے۔ کالج میں ہوسٹل کے علاوہ تیراکی، کشتی رانی، کوہ پیمائی، باسکٹ بال، یو۔ٹی۔ سی اور آئی۔اے۔ٹی۔سی کے شعبوں کے انچارج اور پاکستان کی قومی باسکٹ بال کے سینئر وائس پریذیڈنٹ رہے۔بڑے محنتی منتظم ، ہمدرد استاد اورمشفق نگران تھے ۔خلافت کے سچے مطیع اور فرمانبردار تھے۔ نظام جماعت کے ساتھ اخلاص ووفا کا تعلق رکھنے والے بزرگ تھے۔ ریاء کاری سے پاک، نرم خو، نرم زبان،انسانیت کے ہمدرد اور نیک انسان تھے۔

13اگست2015 کو بھی آپ دفتر تشریف لائے اور تمام وقت دفتری امور کی انجام دہی کے بعد گھر گئے، جہاں ان کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 13اور 14اگست 2015ء کی درمیانی شب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا کرے اور ان جیسے مخلص اور فدائی جماعت کو ہمیشہ عطا کرتا چلا جائے۔ آمین

آپ اردو ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی زبان کے بلند پایہ قادر الکلام شاعر تھے۔آپ کا کلام جماعت اور ملک کے ادبی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔آپ نے زیادہ شاعری اردو زبان میں کی اور آپ کا واحد مجموعہ کلام اشکوں کے چراغ ہے۔اس ویب سائیٹ پر آپ کا کلام اسی کتاب کی ترتیب کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں