صفحات

اتوار، 12 فروری، 2017

399۔ تری آنکھوں میں عیّاری بہت ہے

اضافہ
ایڈیشن سوم

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم صفحہ581-583

399۔ تری آنکھوں میں عیّاری بہت ہے


تری آنکھوں میں عیّاری بہت ہے
صداقت کم اداکاری بہت ہے

فقیہِ شہر، درباری بہت ہے
اور اس کی سوچ سرکاری بہت ہے

مری تکفیر کے فتوے سے تجھ پر
حکومت کا نشہ طاری بہت ہے

یہ الٹی آنکھ کے ہےہیں کارنامے
کہ سیدھی نور سے عاری بہت ہے

میں کیسے مان لوں اسلام تیرا
کہ یہ اسلام سرکاری بہت ہے

یہ چِٹّا جھوٹ ہے اعلان تیرا
لب و لہجہ بھی بازاری بہت ہے

اِدھر ہے تیرا نوّے دن کا وعدہ
اُدھر کرسی تجھے پیاری بہت ہے

کلاشنکوف کی اور 'ہیرون' کی
سنا ہے گرم بازاری بہت ہے

ہوں تیرے رتجگے تجھ کو مبارک
مجھے 'سحری' کی بیداری بہت ہے

تو عادی قتلِ ناحق کا ہے لیکن
خود اپنی جاں تجھے پیاری بہت ہے

یہ تخت و تاج ہوں تجھ کو مبارک
مجھے سولی کی سرداری بہت ہے

مبارک تجھ کو تیری پارسائی
مجھے اپنی خطا کاری بہت ہے

میں تیری ہاں میں ہاں کیسے ملا دوں
دلِ نادان انکاری بہت ہے

میں ہنستا مسکراتا جا رہا ہوں
اگرچہ زخم بھی کاری بہت ہے

خریدو عشق کو، لیکن سنبھل کر
کہ اس میں چور بازاری بہت ہے

سنا ہے جی اٹھا اسلم قریشی
خبر لیکن یہ اخباری بہت ہے

بتا تو دوں ترے انجام کی بات
مگر یہ بات انذاری بہت ہے

نہ جانے پھول کا انجام کیا ہو
اسے ہنسنے کی بیماری بہت ہے

اسیرِ زلفِ جاناں ہو چکے ہیں
ہمیں اتنی گرفتاری بہت ہے

عجب کیا جاتے جاتے رک بھی جاؤں
اگرچہ اب کے تیّاری بہت ہے


گزرنے میں نہیں آتا ہے مضطرؔ
یہ لمحہ ہجر کا بھاری بہت ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


ہفتہ، 11 فروری، 2017

400۔ ایک ماڑا، ایک تگڑا چوک میں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ584

400۔ ایک ماڑا، ایک تگڑا چوک میں


ایک ماڑا، ایک تگڑا چوک میں
کر رہے تھے رات، جھگڑا چوک میں

یہ تماشا دیکھنے کے واسطے
جمع تھا ہر لُولا لنگڑا چوک میں

کاٹ کھائی ماڑے نے تگڑے کی ٹانگ
تگڑے نے ماڑے کو رگڑا چوک میں

مل گئی ماڑے کی عزت خاک میں
ڈھے گیا تگڑے کا پگڑا چوک میں

فیصلہ پھر بھی نہ مضطرؔ ہو سکا
کون ہے مدفون جبڑا چوک٭ میں

٭ایک آمر کی باقیات کا مدفن جوعرف عام میں جبڑا چوک کہلاتا ہے۔

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


جمعہ، 10 فروری، 2017

401۔ اس عہد کے آسیب کو کرسی کی پڑی تھی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ585-586

401۔ اس عہد کے آسیب کو کرسی کی پڑی تھی


اس عہد کے آسیب کو کرسی کی پڑی تھی
مخلوقِ خدا تھی کہ پریشان کھڑی تھی

اس لمحہء بیدار سے جب آنکھ لڑی تھی
دن حشر کا تھا اور قیامت کی گھڑی تھی

ہم تھے تو فقط تیری طرف محوِ سفر تھے
رستہ بھی خطرناک تھا منزل بھی کڑی تھی

ہم عہدِ اذیّت میں اکیلے تو نہیں تھے
اُس عہد کی آواز بھی ہمراہ کھڑی تھی

اے دیدۂ گریاں! یہ مرے اشک نہیں تھے
آیات کی برسات تھی ساون کی جھڑی تھی

امسال تو قاتل بھی کسی کام نہ آیا
ہر چند کہ اس شوخ سے اُمّید بڑی تھی

کیا جانیے کیوں پڑھ نہ سکی فردِ عمل کو
یہ قوم٭ سنا ہے کہ بہت لکھّی پڑھی تھی

یہ عشق کے اعلان کے سو سال نہیں تھے
لذّت سے لرزتے ہوئے لمحوں کی لڑی تھی

ہم لوگ بڑے چین سے بیٹھے تھے بھنور میں
تاریخ بھی حیران کنارے پہ کھڑی تھی

مضطرؔ پسِ آواز کوئی تھا جو کھڑا تھا
واللہ ہمیں اس سے محبت بھی بڑی تھی

٭علماءِ سوء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


جمعرات، 9 فروری، 2017

402۔ جب بھی وہ عہد کا حسیں بولے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ587

402۔ جب بھی وہ عہد کا حسیں بولے


جب بھی وہ عہد کا حسیں بولے
عرش بولے، کبھی زمیں بولے

جب وہ بولے تو ساتھ ساتھ اس کے
ذرّہ ذرّہ بصَد یقیں بولے

چاند سورج گواہی دیں اس کی
اُس کا منکر نہیں نہیں بولے

شور برپا ہے صحنِ مقتل میں
برسرِدار اک حسیں بولے

اشک ہی تھے جو چپ رہے، یعنی
اشک ہی تھے جو بہتریں بولے

کب کرے اپنے جرم کو تسلیم
کس لئے مارِ آستیں بولے

یہ ہمارا ہی حوصلہ ہے میاں
قتل ہو کر بھی ہم نہیں بولے

قتلِ ناحق پہ کس لئے مضطرؔ
چپ رہے آپ، کیوں نہیں بولے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


بدھ، 8 فروری، 2017

403۔ یہ جو صحرا میں گل کِھلے ہیں میاں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ588-589

403۔ یہ جو صحرا میں گل کِھلے ہیں میاں


یہ جو صحرا میں گل کِھلے ہیں میاں
گل نہیں ہیں یہ معجزے ہیں میاں

کیسے کیسے نشان رحمت کے
آسماں سے برس رہے ہیں میاں

کبھی روکے سے رک نہیں سکتے
یہ محبت کے قافلے ہیں میاں

سب گزرتے ہیں کوئے جاناں سے
عشق کے جتنے راستے ہیں میاں

وہی آواز ہے وہی انداز
تم سے پہلے کہیں ملے ہیں میاں

گالیاں سن کے دے رہے ہیں دعا
یہ فقیروں کے حوصلے ہیں میاں

دیکھئے جیت کس کی ہوتی ہے
میرے مجھ سے مقابلے ہیں میاں

منزلوں کے ہیں چشمدید گواہ
یہ جو پاؤں کے آبلے ہیں میاں

ہم انہیں فاصلے نہیں کہتے
یہ جو فرقت کے فاصلے ہیں میاں

حملہ آور ہے آج دشمنِ جاں
ہم بھی میدان میں کھڑے ہیں میاں

منزلیں پاس آ گئیں چل کر
دو قدم بھی نہیں چلے ہیں میاں

کر دیئے ہم نے سارے قتل معاف
کوئی شکوے نہ اب گلے ہیں میاں

سورج اور چاند ہی نہیں مضطرؔ
اب ستارے بھی بولتے ہیں میاں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


منگل، 7 فروری، 2017

404۔ سرحدِ امتحاں سے گزرتے ہوئے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ590-591

404۔ سرحدِ امتحاں سے گزرتے ہوئے


سرحدِ امتحاں سے گزرتے ہوئے
ہم بھی حاضر ہوئے ڈرتے ڈرتے ہوئے

ہجر کی رُت میں یہ کس کی یاد آ گئی
آپ کیوں رک گئے بات کرتے ہوئے

شرم سے ڈوب کر مر گیا معترض
ہم امَر ہو گئے مرتے مرتے ہوئے

اوجِ قطبین پر بھی ہیں گرمِ سفر
ننگے پاؤں مسافر ٹھٹھرتے ہوئے

سائے انکار کے منجمد ہو گئے
گھٹتے گھٹتے ہوئے بڑھتے بڑھتے ہوئے

آئنہ دیکھنے کی نہ جرأت ہوئی
عمر گزری تھی بنتے سنورتے ہوئے

چاند سورج بھی ہیں دائیں بائیں کھڑے
صبحِ صادق کی تصدیق کرتے ہوئے

کہیں انکار ہی کی سزا تو نہیں
یہ فتنوں پہ فتنے ابھرتے ہوئے

وصل کی رُت میں بھی تم ہو کیوں دم بہ خود
کیوں زباں رک گئی بات کرتے ہوئے

مجھ کو تسلیم ہیں ساری گستاخیاں
شرم آتی ہے مضطرؔ مکرتے ہوئے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


پیر، 6 فروری، 2017

405۔ برائی زمین و زماں میں نہیں ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ592-593

405۔ برائی زمین و زماں میں نہیں ہے


برائی زمین و زماں میں نہیں ہے
مکینوں میں ہے یہ مکاں میں نہیں ہے

تجھے دیکھ کر تیرا انکار کر دے
یہ ہمت کسی بدگماں میں نہیں ہے

کوئی وجہِ ترکِ تعلق عزیزو!
مرے آپ کے درمیاں میں نہیں ہے

یہ دھوکا لگا ہے مرے معترض کو
کہ وہ معرضِ امتحاں میں نہیں ہے

اگر آپ آ جائیں واپس تو کیا ہے
جو ربوے میں اور قادیاں میں نہیں ہے

شکاری بڑی دیر سے منتظر ہیں
پرندہ مگر آشیاں میں نہیں ہے

گلی میں تو چرچا ہے اب بھی اسی کا
سنا ہے کہ مالک مکاں میں نہیں ہے

فقط دائیں بائیں کا ہے فرق ورنہ
کوئی فاصلہ درمیاں میں نہیں ہے

فقط شور ہی شور ہے یہ سراسر
اگر سوز آہ و فغاں میں نہیں ہے

یہ دعویٰ ہے دجّال کا اب بھی مضطرؔ
دریچہ کوئی آسماں میں نہیں ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی