اشکوں
کے چراغ ایڈیشن سوم صفحہ588-589
403۔ یہ
جو صحرا میں گل کِھلے ہیں میاں
یہ
جو صحرا میں گل کِھلے ہیں میاں
گل
نہیں ہیں یہ معجزے ہیں میاں
کیسے
کیسے نشان رحمت کے
آسماں
سے برس رہے ہیں میاں
کبھی
روکے سے رک نہیں سکتے
یہ
محبت کے قافلے ہیں میاں
سب
گزرتے ہیں کوئے جاناں سے
عشق
کے جتنے راستے ہیں میاں
وہی
آواز ہے وہی انداز
تم
سے پہلے کہیں ملے ہیں میاں
گالیاں
سن کے دے رہے ہیں دعا
یہ
فقیروں کے حوصلے ہیں میاں
دیکھئے
جیت کس کی ہوتی ہے
میرے
مجھ سے مقابلے ہیں میاں
منزلوں
کے ہیں چشمدید گواہ
یہ
جو پاؤں کے آبلے ہیں میاں
ہم
انہیں فاصلے نہیں کہتے
یہ
جو فرقت کے فاصلے ہیں میاں
حملہ
آور ہے آج دشمنِ جاں
ہم
بھی میدان میں کھڑے ہیں میاں
منزلیں
پاس آ گئیں چل کر
دو
قدم بھی نہیں چلے ہیں میاں
کر
دیئے ہم نے سارے قتل معاف
کوئی
شکوے نہ اب گلے ہیں میاں
سورج
اور چاند ہی نہیں مضطرؔ
اب
ستارے بھی بولتے ہیں میاں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
ایک جؤٹ مردود کو نبی ماننے والے انسان نہیں درندے ہیں
جواب دیںحذف کریں