اشکوں
کے چراغ ایڈیشن سوم صفحہ601-602
409۔ تو
اپنے عہد کا مسند نشیں ہے
تو
اپنے عہد کا مسند نشیں ہے
تو
سچّا ہے تو سُچّا ہے حسیں ہے
زمانے
میں کہاں تجھ سا حسیں ہے
نہیں،
ہرگز نہیں، ہرگز نہیں ہے
جہاں
تو ہے مرا دل بھی وہیں ہے
وہیں
پر ہے، وہیں پر ہے، وہیں ہے
ترے
اجداد اِک دوجے سے بڑھ کر
کہ
تو خود بھی یکے از کاملیں ہے
ترے
رخ سے اجالا ہے جہاں میں
کہ
تو اس عہد کا ماہِ مبیں ہے
ترے
ہمراہ ہے سچّی جماعت
کہ
تو سچّوں کا آقا ہے امیں ہے
فقط
تو قافلہ سالار ہے آج
مرا
ایمان ہے، میرا یقیں ہے
بتاؤں
کس طرح خلقِ خدا کو
کہ
تو اس عہد کا حِصنِ حصیں ہے
تری
دہلیز ہے اور میں ہوں پیارے
مرا
جینا، مرا مرنا، یہیں ہے
عجب
کیا وقت کی رفتار رک جائے
مگر
ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے
مجھے
خطرہ اگر ہے تو اسی سے
تکلّف
کا جو مارِ آستیں ہے
یہ
مٹّی مجھ کو کھا جائے گی آخر
کہ
میں اس کا ہوں یہ میری نہیں ہے
تو
اس کے پاؤں کی ہے خاک مضطرؔ
بچھڑ
کر جس سے دنیا ہے نہ دیں ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں