اشکوں
کے چراغ ایڈیشن سوم صفحہ590-591
404۔ سرحدِ
امتحاں سے گزرتے ہوئے
سرحدِ
امتحاں سے گزرتے ہوئے
ہم
بھی حاضر ہوئے ڈرتے ڈرتے ہوئے
ہجر
کی رُت میں یہ کس کی یاد آ گئی
آپ
کیوں رک گئے بات کرتے ہوئے
شرم
سے ڈوب کر مر گیا معترض
ہم
امَر ہو گئے مرتے مرتے ہوئے
اوجِ
قطبین پر بھی ہیں گرمِ سفر
ننگے
پاؤں مسافر ٹھٹھرتے ہوئے
سائے
انکار کے منجمد ہو گئے
گھٹتے
گھٹتے ہوئے بڑھتے بڑھتے ہوئے
آئنہ
دیکھنے کی نہ جرأت ہوئی
عمر
گزری تھی بنتے سنورتے ہوئے
چاند
سورج بھی ہیں دائیں بائیں کھڑے
صبحِ
صادق کی تصدیق کرتے ہوئے
کہیں
انکار ہی کی سزا تو نہیں
یہ
فتنوں پہ فتنے ابھرتے ہوئے
وصل
کی رُت میں بھی تم ہو کیوں دم بہ خود
کیوں
زباں رک گئی بات کرتے ہوئے
مجھ
کو تسلیم ہیں ساری گستاخیاں
شرم
آتی ہے مضطرؔ مکرتے ہوئے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں