اشکوں
کے چراغ ایڈیشن سوم صفحہ594-595
406۔ حادثہ
اندر ہی اندر ہو گیا
حادثہ
اندر ہی اندر ہو گیا
وہ
ہنسا اور ہنس کے پتھر ہو گیا
بولنا
بھی تھا بہت مشکل مگر
اب
تو چپ رہنا بھی دوبھر ہو گیا
ریزہ
ریزہ ہو گئی تصویر بھی
آئنہ
ناراض مل کر ہو گیا
ہم
ہوئے بدنام اگر اس کے لیے
تذکرہ
اس کا بھی گھر گھر ہو گیا
شہر
کی دیوار تو تھی ہی خلاف
سایہ
بھی اب حملہ آور ہو گیا
دل
پگھل کر بہہ گئے فرقت کی شب
آنکھ
کا صحرا سمندر ہو گیا
اس
قدر اس نے ستایا خلق کو
سب
کو اس کا نام ازبر ہو گیا
دن
چڑھے بیمار کو نیند آ گئی
زندگی
کا مرحلہ سر ہو گیا
کس
لئے حیران ہیں دشمن مرے
معجزہ
تھا بارِ دیگر ہو گیا
اب
بھی حیرت ہے کہ دِل کا مرحلہ
اس
قدر آسان کیونکر ہو گیا
جب
سے مضطرؔ کی زباں بندی ہوئی
وہ
غزل کہنے کا خوگر ہو گیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں