صفحات

بدھ، 1 جون، 2016

108۔ میں سوچتی ہوں ، میں کُڑھ رہی ہوں

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ319۔321

108۔ میں سوچتی ہوں ، میں کُڑھ رہی ہوں


اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کہ ساحل کراچی پر چند اوباشوں نے سیر کے لئے آنے والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے ماں میری مادرِ وطن
تجھ سے تیرے بیٹوں نے کیا کِیا ہے
میں سوچتی ہوں
میں کُڑھ رہی ہوں

یہ تیرے بیٹے کہ خود ہی دشمن بنے ہیں تیرے
یہ اپنی دھرتی کو رَوندتے ہیں
یہ بیٹیاں اپنی بیچتے ہیں
یہ اپنی بہنوںکی آبرو لے کے اُن کے لاشوں پہ ناچتے ہیں
نہیں ہے غیرت کا نام ان میں
یہ بے حسی کے مجسمّے ہیں
یہ اپنے بھائیوں کا خون پی پی کے جی رہے ہیں
اے ماںمیری مادرِ وطن
تجھ سے تیرے بیٹوں نے کیا کیا ہے
میں سوچتی ہوں
میں کُڑھ رہی ہوں

یہ آج اہل جہاں کی نظروں میں ہدف تضحیک بن گئے ہیں
ہرالٹی تدبیر کر رہے ہیں یہ تیری تحقیر کر رہے ہیں
تجھے ضرورت کہاں ہے ان کی
تجھے ضرورت ہے ابن قاسم کی جو چلا تھا عرب سے اپنی بس اک بہن کی پکار سُن کر
وہ جس نے توڑا غرور داہر کا اُس کی ہی سرزمیں میں آ کر
تجھے ضرورت ہے طارق و خالدؓ جری کی
تجھے ہی ایوبی کی ضرورت
تجھے ضرورت ہے غزنوی کی
ہاں ایسے ہی ایک غزنوی کی جو نفسِ بد کا ہر ایک بُت پاش پاش کر دے
تجھے ضرورت ہے ایسے بیٹوں کی
بوبکرؓ کا خلوص و صدق و صفا ہو جن میں
عمرؓکی جرأت ہو، چشمِ بینا ہو، عزم و فہم و ذکا ہو جن میں
وہ بیٹے، عثمانؓ کی شرافت ہو اور حلم و حیا ہو جن میں
علیؓ کی ہیبت ہو اور شجاعت
حسینؓ کا ذوقِ جاں نثاری
حسنؓ کی بے نفس خاکساری
تجھے ضرورت ہے ایسے بیٹوں کی
جو کہ تجھ کو وقار بخشیں
جو زندگی کو نکھار بخشیں
جو اِس چمن کو بہار بخشیں
جو بہن کو بھائی کا تحفظ، جو ماں کوبیٹوں کا پیار بخشیں
جو ماؤں بہنوں کو، بیٹیوں کو سکون بخشیں قرار بخشیں
جو ملک کو سر بلند کر دیں
جو قوم کو افتخار بخشیں
اے ماں میری مادرِ وطن اب
تیرے اُفق پر مگر یہ صبح وفا نمودار ہو گی کب تک
میں سوچتی ہوں
میں کُڑھ رہی ہوں

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


109۔ سقوطِ ڈھاکہ

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ322۔324

109۔ سقوطِ ڈھاکہ


واقعہ کیسا ہے یہ اسلام کی تاریخ کا
ذہن ہے ماؤف اے مالک یہ سب کیا ہو گیا
کافروں کے سامنے ہتھیار ڈالے برملا
قومِ مسلم کو بھری دنیا میں رسوا کر دیا
''آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے''

چیخ اُٹھی قوم دو اب اِن سوالوں کا جواب
بولو کیا دیکھا یہی تھا قائداعظم نے خواب
تم اگر نااہل تھے تو کیوں کیا ہم کو خراب
تم سے ہم لیں گے شہیدوں کے لہو کا اب حساب
بات جب حد سے بڑھی تو پھر بصد عجز و نیاز
لاش دے کر ملک کی بولے کہ لے اس کو سنبھال

قوم کو لیڈر ملے ہیں کس قدر ملت فروش
اب بھی کیوں آتا نہیں ہے اپنی بے ہوشی کو ہوش
دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش
قوم کو ملتا نہیں اب کوئی پیغام سروش
''اب نوا پیرا ہے کیا گلشن ہوا برہم تیرا
بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم تیرا''

سوٹ امریکہ کا ہے اور بوٹ ہے جاپان کا
جرمنی کی ٹائی ہے رومال ہے ایران کا
روح ان کی روس کی ہے ذہن انگلستان کا
رہ گیا اک جسدِ خاکی سو ہے پاکستان کا
ہم یونہی سوتے رہے تو گورکن تہران سے
آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے

بن گیا ہے پاک کا بازار میڈ ان چائنا
سرحدوں پہ دمدمے ہتھیار میڈ ان چائنا
چیز جو لینے کی تھی ان سے وہ ہم نے لی نہیں
لیڈروں کا آہنی کردار میڈ ان چائنا
''وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا''

خودبخود بھی ٹوٹ کر گرتی ہیں زنجیریں کہیں
اِس طرح قوموں کی بھی بدلی ہیں تقدیریں کہیں
ہو نہ یک جہتی تو کام آتی ہیں تدبیریں کہیں
ہاتھ سے تخریب کے ممکن ہے تعمیریں کہیں
''فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں''

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


110۔ ''باجی قدیر''

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ325

110۔ ''باجی قدیر''


''سختی سہی نہیں کہ اُٹھائی کڑی نہیں''
مشکل وہ کونسی ہے جو تجھ پہ پڑی نہیں

اِک کانچ کا کھلونا تیرے ہاتھ میں دیا
بَہلا کے تجھ کو یوں تِرا ساتھی بھی چل دیا

پھر حوصلہ تِرا ہؤا دنیا پہ آشکار
کتنا کڑا تھا وقت جو تنہا دیا گذار

پھر بھی شگفتہ چہرہ شگفتہ خصال ہے
کم ہمتوں کے واسطے روشن مثال ہے

ہر غم کو چٹکیوں میں ہی تو نے اڑا دیا
ہنس ہنس کے زندگی کو تماشہ بنا دیا

باحوصلہ وجود چٹانوں سے کم نہیں
ان کو مٹا سکے یہ زمانے میں دَم نہیں

اَب یہ دعا ہے تجھ پہ ہوں مولا کی رحمتیں
حاصل ہوں تجھ کو دین کی، دنیا کی نعمتیں

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


111۔ بجلی

ے دراز دستِ دعا مرا صفحہ326۔330

111۔ بجلی


نہ امریکہ، نہ افریقہ، نہ انگلستان کی بجلی
بلادِ عربیہ کی ہے نہ ترکستان کی بجلی
نہ ایسی جرمنی، ہسپانیہ، ایران کی بجلی
نہ ایسی چین کی نہ روس نہ جاپان کی بجلی
زمانے نے نہ دیکھی ہو گی ایسی شان کی بجلی
ہے جیسی میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

یہ اکثر بند رہتی ہے، یہ اکثر بند ہوتی ہے
یہ پبلک کو جگا کے چین سے دن رات سوتی ہے
اندھیرے میں ڈراتی ہے، پسینے میں بھگوتی ہے
جو ملتا ہے مقّدر سے یہ وہ نایاب موتی ہے
بہت ہی شاذ ملتی ہے یہ شاہی آن کی بجلی
کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

بہت یاروں نے پھیرے بھی لگائے واپڈا گھر کے
مگر درشن نہ ہوپائے ۔کبھی رُوئے منوّر کے
سُنا ہے سخت آرڈر آئے ہیں اُوپر سے افسر کے
مَرے مرتی ہے پبلک کھیل ہیں اس کے مقّدر کے
پہ، بند ہونے نہ پائے والا و ذیشان کی بجلی
کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

مِلا جو فون قسمت سے تو پھر یہ ہی جواب آیا
کریں کیا ہم کہ دُنیا میں ہے موسم ہی خراب آیا
ہؤا ہے ضُعف بجلی کو جو گرمی پہ شباب آیا
مگر ہر ماہ بِل بجلی کا بن کر اک عذاب آیا
کَٹی جاتی ہَے جس سے ذہن کی وِجدان کی بجلی
ہے ایسی میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

اگر بجلی میّسر ہو کبھی ٹی-وی نظر آئے
تو اس کو دیکھ کر ہو درد دِل میں آنکھ بھر آئے
کوئی اچھا ڈرامہ نہ کوئی اچھی خبر آئے
نظر حکّام کی صورت سے نہ کوئی مفر آئے
چمکتی ہے ہر اک لحظہ نئے فرمان کی بجلی
کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

نمازی مسجدوں میں کس قدر حیران بیٹھے ہیں
یہ روزہ دار بیچارے بہت ہلکان بیٹھے ہیں
بہت بہیوش لیٹے ہیں بہت بے جان بیٹھے ہیں
لئے ہاتھوں میں بس اک دولتِ ایمان بیٹھے ہیں
ہمیں ہر سال سہماتی ہے ہر رمضان کی بجلی
ہے ایسی میرے پیارے ُملک پاکستان کی بجلی

بہت سے لوگ اپنی جان سے بیزار بیٹھے ہیں
نہیں ہلنے کی طاقت کیا کریں بیکار بیٹھے ہیں
یہ سارے واپڈا کے سامنے لاچار بیٹھے ہیں
''بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں''
ہے اَب خطرے کی زد میں ہستی ء انسان کی بجلی
ہے ایسی میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

میری بچیّ یہ کہتی تھی کہ امریکہ ہی چلتے ہیں
یہ سُنتے ہیں وہاں بجلی بھی ہے اے۔ سی بھی چلتے ہیں
یہاں تو حال سے بے حال ہیں ، گرمی میں جلتے ہیں
جو تپ جاتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
میری جاں چُپ رہو یہ ہے انوکھی شان کی بجلی
کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

بہت ہی لرزہ خیز و دُکھ بھری اپنی کہانی ہے
رَواں ہو آبشار ایسے پسینے کی روانی ہے
بہت نایاب بجلی ہے، بہت کمیاب پانی ہے
بہت بد حال پیری ہے، بہت خستہ جوانی ہے
بہت فقدان پانی کا، بہت بحران کی بجلی
کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

یہاں کے پول ناقص ہیں، یہاں کا تار ناقص ہے
یہاں کا آلۂ ترسیل ہے بیکار ناقص ہے
یہاں چھوٹی، بڑی جتنی بھی ہے سرکار ناقص ہے
کریں کیا ہم ہمارا سارا کاروبار ناقص ہے
ہے میرے شہر کی تو شہر نا پُرسان کی بجلی
کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی

٭٭٭٭

یہ مزاحیہ نظم اس خیال سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوائی تھی کہ حضور اس سے لطف اندوز ہونگے لیکن ربوہ سے دوری اس رنگ میں حضور پر اثر انداز ہوئی تھی کہ حضور نے اپنے خط میں تحریر فرمایا:

میری سادگی دیکھو کہ تمہاری بجلی والی نظم کو مزاحیہ سمجھ کر دفتر میں بیٹھے ہوئے بعض ملاقاتیوں کو بلند آواز سے مزے لے لے کر سنانے لگا کہ اچانک وہ بند آ گیا جس کا پہلا مصرعہ ہے۔
''نمازی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کس قدر حیران بیٹھے ہیں''
مجھے تو یوں لگا جیسے کسی نے میرے دل پر بجلی گرا دی ہو۔ میری آواز جیسے کسی نے گلے ہی میں گھونٹ دی ہو۔ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے بقیہ بند میں نے بمشکل زیر لب ہی پڑھا۔
یہ روزہ دار بے چارے بہت ہلکان بیٹھے ہیں
بہت بے ہوش لیٹے ہیں بہت بے جان بیٹھے ہیں
لئے ہاتھوں میں اپنے دولتِ ایمان بیٹھے ہیں
ہمیں تا عمر یاد آئے گی اس رمضان کی بجلی
ربوہ کے درویشوں کی تکلیف نے مجھے سخت تڑپایا۔
اگر میں بھی ربوہ کی کسی ۔۔۔۔۔۔کی صف میں بے حال لیٹا ہوتا تو مجھے اتنی تکلیف تو نہ ہوتی۔
والسلام
خاکسار
مرزا طاہر احمد

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ