ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ319۔321
108۔ میں سوچتی ہوں ، میں کُڑھ رہی ہوں
اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کہ
ساحل کراچی پر چند اوباشوں نے سیر کے لئے آنے والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے ماں میری مادرِ وطن
تجھ سے تیرے بیٹوں نے کیا کِیا ہے
میں سوچتی ہوں
میں کُڑھ رہی ہوں
یہ تیرے بیٹے کہ خود ہی دشمن بنے ہیں
تیرے
یہ اپنی دھرتی کو رَوندتے ہیں
یہ بیٹیاں اپنی بیچتے ہیں
یہ اپنی بہنوںکی آبرو لے کے اُن کے
لاشوں پہ ناچتے ہیں
نہیں ہے غیرت کا نام ان میں
یہ بے حسی کے مجسمّے ہیں
یہ اپنے بھائیوں کا خون پی پی کے جی
رہے ہیں
اے ماںمیری مادرِ وطن
تجھ سے تیرے بیٹوں نے کیا کیا ہے
میں سوچتی ہوں
میں کُڑھ رہی ہوں
یہ آج اہل جہاں کی نظروں میں ہدف تضحیک
بن گئے ہیں
ہرالٹی تدبیر کر رہے ہیں یہ تیری تحقیر
کر رہے ہیں
تجھے ضرورت کہاں ہے ان کی
تجھے ضرورت ہے ابن قاسم کی جو چلا تھا
عرب سے اپنی بس اک بہن کی پکار سُن کر
وہ جس نے توڑا غرور داہر کا اُس کی
ہی سرزمیں میں آ کر
تجھے ضرورت ہے طارق و خالدؓ جری کی
تجھے ہی ایوبی کی ضرورت
تجھے ضرورت ہے غزنوی کی
ہاں ایسے ہی ایک غزنوی کی جو نفسِ بد
کا ہر ایک بُت پاش پاش کر دے
تجھے ضرورت ہے ایسے بیٹوں کی
بوبکرؓ کا خلوص و صدق و صفا ہو جن میں
عمرؓکی جرأت ہو، چشمِ بینا ہو، عزم
و فہم و ذکا ہو جن میں
وہ بیٹے، عثمانؓ کی شرافت ہو اور حلم
و حیا ہو جن میں
علیؓ کی ہیبت ہو اور شجاعت
حسینؓ کا ذوقِ جاں نثاری
حسنؓ کی بے نفس خاکساری
تجھے ضرورت ہے ایسے بیٹوں کی
جو کہ تجھ کو وقار بخشیں
جو زندگی کو نکھار بخشیں
جو اِس چمن کو بہار بخشیں
جو بہن کو بھائی کا تحفظ، جو ماں کوبیٹوں
کا پیار بخشیں
جو ماؤں بہنوں کو، بیٹیوں کو سکون بخشیں
قرار بخشیں
جو ملک کو سر بلند کر دیں
جو قوم کو افتخار بخشیں
اے ماں میری مادرِ وطن اب
تیرے اُفق پر مگر یہ صبح وفا نمودار
ہو گی کب تک
میں سوچتی ہوں
میں کُڑھ رہی ہوں
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں