صفحات

جمعرات، 9 جون، 2016

77۔ دلوں کو چھید کر رکھ دیں جو ان لفظوں سے خائف ہوں

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ242۔244

77۔ دلوں کو چھید کر رکھ دیں جو ان لفظوں سے خائف ہوں


دلوں کو چھید کر رکھ دیں جو ان لفظوں سے خائف ہوں
کسی معصوم پہ بنتی ہوئی باتوں سے خائف ہوں

وہ جن کی آنچ سے دل کے کنول مرجھا کے رہ جائیں
مَیں ایسے گرم جھلساتے ہُوئے لہجوں سے خائف ہوں

کسی کو ذات سے میری کوئی تکلیف نہ پہنچے
مجھے پیارے ہیں جو مَیں اُن سبھی رشتوں سے خائف ہوں

اُنہیں ہر ایک سے ہر پَل گِلے ، شکوے ہی رہتے ہیں
انا کے جال میں جکڑے ہُوئے لوگوں سے خائف ہوں

کدورت دل میں ہَے تو پھر کسی پَل وار کر دیں گے
نقابِ دوستی ڈالے ہُوئے چہروں سے خائف ہوں

یہ مانا مَیں نے جذبہ ہائے دل انمول ہوتے ہیں
مگر بے مول جو کر دیں مَیں اُن جذبوں سے خائف ہوں

بکھر جائے کوئی تو پھر سمیٹا جا نہیں سکتا
مجھے جو منتشر کر دیں مَیں ان سوچوں سے خائف ہوں

زمانے بھر میں میرے درد کی تشہیر کر دیں گے
مَیں غم خواروں سے ، ہمدردوں سے ، ہمرازوں سے خائف ہوں

مجھے بے دست و پا کرکے کہیں آگے نہ بڑھ جائیں
مَیں اپنی زندگی کے بھاگتے لمحوں سے خائف ہوں

مجھے بے چارگی سے، بے بسی سے خوف آتا ہے
سہارے کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے خائف ہوں

جو حسرت میں بدل کر زندگی کا روگ بن جائیں
مَیں ایسی خواہشوں ایسی تمناؤں سے خائف ہوں

یہ پنجے گاڑ دیں جس جا وہاں کچھ بھی نہیں رہتا
مَیں اپنے چار سُو پھیلی ہوئی رسموں سے خائف ہوں

کہیں پاسِ مروّت ہے، کہیں احساسِ غیرت ہے
کبھی اپنوں سے خائف ہوں کبھی غیروں سے خائف ہوں

یہ دیمک کی طرح سے آدمی کو چاٹ جاتے ہیں
وساوس ، خوف ، ڈر ، افکار ، اندیشوں سے خائف ہوں

جہاں نہ چَین دن کو ہو نہ راتیں پُرسکوں گزریں
سبھی ایسے مکانوں، ان شبستانوں سے خائف ہوں

خُدا حامی ہے اپنا یہ یقیں تو ہے مگر پھر بھی
درونِ خانہ پلتے ہیں جو ان فِتنوں سے خائف ہوں

سمجھتے ہیں جنہیں ناداں، بہت ادراک والے ہیں
مَیں بچوں کے سوالوں، کھوجتی نظروں سے خائف ہوں

نظر ہر گام پر دلکش مناظر سے الجھتی ہے
جو منزل سے ہی بھٹکا دیں مَیں اُن راہوں سے خائف ہوں

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں