ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ124۔126
30۔ ہم رہے ثابت قدم سب گردشوں کے باوجود
بے
سبب سی ہے اُداسی رونقوں کے باوجود
دل
میں تنہائی ہے اُتری دوستوں کے باوجود
ہجر
کا دور گراں اپنی جگہ پر اب تلک
وصل
کی امید بھی تھی فاصلوں کے باوجود
یہ
تسلی تو تھی اس دنیا کا ہی باسی تو ہے
قرب
کا احساس سا تھا فرقتوں کے باوجود
خوف
تھا خدشے بھی تھے فکریں بھی اندیشے بھی تھے
لیک
مایوسی نہیں تھی وسوسوں کے باوجود
کیا
ہوا کہ یک بیک دامن چھڑا کے چل دیا
مڑ
کے بھی دیکھا نہ اتنی چاہتوں کے باوجود
کر
گیا ہے نقش ہر اِک دل پہ وہ انمٹ نقوش
بھول
پائے گا نہ گزری ساعتوں کے باوجود
کیوں
نہ میرے دل میں اس کی چاہ کے جذبے پلیں
مجھ
کو چاہا جس نے میری خامیوں کے باوجود
دل
میں ایسے بھی اُتر آتے ہیں سنّاٹے کبھی
جیسے
وہ زندہ ہی نہ ہو دھڑکنوں کے باوجود
ذہن
ہے سویا ہوا سا نغمگی کی بزم کا
آنکھ
دھندلائی ہوئی ہے مہ رُخوں کے باوجود
وہ
گیا کیا رونقِ بزمِ چمن جاتی رہی
لذتِ
دادِ ہنر، شعر و سخن جاتی رہی
شکر
للہ کہ وفا کے پھول مرجھائے نہیں
ہیں
شگفتہ موسموں کی شدتوں کے باوجود
جانب
منزل رواں ہے اب بھی اپنا کارواں
تازہ
دم ہے راستے کی سختیوں کے باوجود
نامرادی
میرے دشمن کا مقدر بن گئی
ہاتھ
کچھ آیا نہ اس کے کوششوں کے باوجود
ان
مخالف سمت جاتے قافلوں سے پوچھیئے
کیوں
بھٹکتے پھر رہے ہیں رہبروں کے باوجود
گر
خدا کو چھوڑ کر ہو ناخداؤں پر نظر
ڈوب
جاتے ہیں سفینے ساحلوں کے باوجود
جن
دِیوں میں پڑتا رہتا ہے خلوصِ دل کا تیل
وہ
دِیے بجھتے نہیں ہیں آندھیوں کے باوجود
گردشِ
افلاک بھی ہم کو ہلا پائی نہیں
ہم
رہے ثابت قدم سب گردشوں کے باوجود
یہ
سہاگن بن پیا کے رہ نہیں سکتی کبھی
پھر
کوئی محبوب دل تسخیر کرنے آگیا
ایک
لمحے کے تعطل میں خلا پیدا ہوا
پھر
نیا اِک باب وہ تحریر کرنے آگیا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں