ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ172۔174
49۔
جو الٰہی جماعت کی تقدیر ہیں
جو الٰہی جماعت کی تقدیر ہیں
ہم پہ بھی تو وہی ابتلاء آ گئے
اہلِ ایماں کو کوئی مٹائے گا کیا
دار پہ چڑھ کے جو زندگی پا گئے
ہم نے ہر ظلم کا وار ہنس کے سہا
یوں کہ ظالم پریشان ہوتا گیا
جتنے ایماں پہ پہرے بٹھائے گئے
اور بھی پختہ ایمان ہوتا گیا
میرا ایماں جو سینے میں پنہاں رہا
اب اُجاگر ہوا ہے خدا کی قسم
اب مرے عشق کا راز مجھ پہ کھلا
مجھ کو حُبِّ رسولِ خدا کی قسم
اپنی جاں بھی اگر پیش کرنی پڑے
اُس کی خدمت میں یہ بھی ہے کم دوستو
اپنی تاریخ کے اِس اہم باب کو
خونِ دل سے کریں گے رقم دوستو
یہ خرافات ہم کو ڈرائیں گی کیا
گرم و سردِ زمانہ چشیدہ ہیں ہم
آتشِ عشق احمدؐ ہے بھڑکی ہوئی
روح و جاں سوختہ دل تپیدہ ہیں ہم
ظلم کے خم لنڈھا کے وہ مخمور ہیں
اُن کی آنکھوں میں رنگِ خمار آ گیا
ابتلاء سے گذر کے مگر دیکھ لو
ہم پہ بھی تو نرالا نکھار آ گیا
لے کے نامِ نبی لے کے نامِ خدا
تم خلائق کو یونہی ستاتے چلو
ہم قدم تیز سے تیز کرتے چلیں
اور تم رہ میں کانٹے بچھاتے چلو
ڈھیل جتنی ملی تم بگڑتے گئے
معصّیت کو سِوا سے سِوا کر دیا
ہم کئے جائیں گے فرض اپنا ادا
فرض تم نے بھی اپنا ادا کر دیا
جھوٹ ، کذب ، افتراء ، زِشت خوئی ،
کجی
کیا اسی پہ ہے دعویءِ عشقِ نبیؐ
'غیرمسلم' کو ہے درد اسلام کا
اور 'مسلماں' کا اسلوب کافر گری
کبر و نخوت کے پیکر یہ سوچا کبھی
ظلم جن پہ کئے ہیں وہ انسان ہیں
جن کے سینوں میں عشقِ نبیؐ موجزن
جن کے ہونٹوں پہ آیاتِ قرآن ہیں
چھین لی ہیں زباں کی تو آزادیاں
میرے دل پہ بھی پہرے بٹھاؤ گے کیا
خونِ مظلوم سے ہاتھ رنگیں کئے
روبرو ربِّ محشر کے جاؤگے کیا
وہ مجیب دعا ہے ہمیں ہے یقین
یہ کشاکش سکوں میں بدل جائے گی
آہِ مظلوم پہنچے گی جب عرش پر
تیرگی بھی اُجالے میں ڈھل جائے گی
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں