ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ264۔265
86۔ مرے مولا ، مرے آقا ، کرم مجھ پہ یہ
فرمائیں
مرے مولا ، مرے آقا ، کرم مجھ پہ یہ
فرمائیں
فرشتوں سے کہیں میرے لئے خیرات لے آئیں
ترے دَر کے سوا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں
اپنا
ترا در چھوڑ کے تُو ہی بتا پھر ہم کہاں
جائیں
تمہارے لُطف نے ہی میری یہ عادت بنا
دی ہے
کہ مَیں مانوں نہ مانوں آپ میری مانتے
جائیں
عطا ہوتی رہی مجھ پہ مگر پردے کے پیچھے
سے
کبھی دیدار کروائیں، کبھی تو چہرہ دکھلائیں
تپکتے گھاؤ لے کر آپ کے در پہ مَیں
آئی ہوں
کریں چارہ گری میری، مرے زخموں کو سہلائیں
مِرا دل لُوٹ لینے کے سبھی ساماں بہم
کر دیں
کبھی اَبرو کو حرکت دیں، کبھی زلفوں
کو لہرائیں
مسائل زندگی کے مجھ کو عاجز کرتے جاتے
ہیں
مِری ہستی کی اُلجھی گُتھیوں کو آ کے
سلجھائیں
جو دل ہو گا تو اس میں آرزؤیں بھی جنم
لیں گی
عجب کیا ہے جو پیدا ہوں مرے دل میں
تمنائیں
مَیں ہو ں محتاج ہر اک خیر کی ، سب
کچھ عطا کر دیں
کھلونے دے کے بس چند ایک ہی مجھ کو
نہ بہلائیں
''شبِ تاریک، بیمِ موج و گردابِ
چنیں حائل'' ١؎
پکڑ لیں ہاتھ میرا، خود مجھے ساحل پہ
پہنچائیں
تقاضہ حُسن کا ہے ناز فرمانا، مگر جاناں
بٹھالیں پہلے پہلو میں مجھے پھر ناز
فرمائیں
کہیں نہ لَن ترانی دید کی طاقت ادا
کر دیں
شبستاں میں مرے بھی چاندنی بن کے اُتر
آئیں
نظر بے تاب ، دل بے چین ہے، جذبے مچلتے
ہیں
چلے آئیں، چلے آئیں، چلے آئیں، چلے
آئیں
وساوس ، خوف ، اندیشے مجھے پَل پَل
ڈراتے ہیں
میرے دل کو تسلّی دیں ، مری ڈھارس بندھا
جائیں
١؎ یہ مصرع حافظ ؔکا ہے۔
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں