ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ134۔135
34۔ حضرت سیّدہ منصورہ بیگم صا حبہ رحمہا
اللہ ۔ حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات پر
رابطہ درمیاں سے ٹوٹ گیا
اتنے برسوں کا ساتھ چھوٹ گیا
سانس کی اک ذرا سی لغزش سے
آبلہ زندگی کا پھوٹ گیا
عورتوں کی وہ رازدار گئی
اور بصد فخر و افتخار گئی
میرے آقا کو دے کے گہرا غم
میرے آقا کی غمگسار گئی
وہ کہ خوددار بھی تھی اور وضعدار بھی
تھی
اہلِ بینش بھی تھی وہ صاحبِ کردار بھی
تھی
عمر بھر سایہ بنی جن کا اُنہیں چھوڑ
گئی
حکمِ حاکم تھا یہی وہ تو وفادار بھی
تھی
آتشِ ربط و تعلق تو ہوئی ہے خاموش
اب تو بس ذہنوں میں یادوں کا دھواں
باقی ہے
گھر کی عورت سے جو نسبت ہے وہی ختم
ہوئی
گھر کہاں اب تو فقط ایک مکاں باقی ہے
کس کا حال پوچھے گا، کس کو کچھ بتائے
گا
مضطرب سا بیٹھا ہے اُس کا ہمسفر کیسے
ایک وہ نہیں ہے تو اس کے گھر میں سناٹا
سُونا سُونا لگتا ہے آج اُس کا گھر
کیسے
زخم محرومی کے بھر جائیں یہ ممکن تو
نہیں
پر خدا ان کو بصد رحمت و برکت رکھے
اب تو ہونٹوں پہ دعا رہتی ہے یہ شام
و سحر
میرا مولا میرے آقا کو سلامت رکھے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں