ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ182۔184
52۔ تھی جلن بے شک مگر تکلیف دِہ چھالا
نہ تھا
تھی جلن بے شک مگر تکلیف دِہ چھالا
نہ تھا
سوز ایسا نہ تھا جب تک آبلہ پھوٹا نہ
تھا
اب تو خود مجھ سے مری اپنی شناسائی
نہیں
آئینے میں مَیں نے یہ چہرہ کبھی دیکھا
نہ تھا
وقت کے ہاتھوں نے یہ کیسی لکیریں ڈال
دیں
ایسے ہو جائیں گے ایسا تو کبھی سوچا
نہ تھا
موسمِ گُل میں تھا جس ٹہنی پہ پھولوں
کا حصار
جب خزاں آئی تو اس پہ ایک بھی پتّا
نہ تھا
پیار کے اک بول نے آنکھوں میں ساون
بھر دیئے
اِس طرح تو ٹوٹ کے بادل کبھی برسا نہ
تھا
خامشی سے وقت کے دھارے پہ خود کو ڈال
دوں
سامنے میرے کوئی اس کے سوا رستہ نہ
تھا
کوئی مجھ کو نہ سمجھ پایا تو کیا شکوہ
، مگر
آپ سے تو میرے احساسات کا پردہ نہ تھا
درمیاں میں اجنبیت کی تھی اک دیوار
سی
جب تلک میں نے اسے اس نے مجھے پرکھا
نہ تھا
فکرِ دیں گاہے تو ، گاہے اہلِ دنیا
کا خیال
کون سا دن تھا کہ میری سوچ پہ پہرہ
نہ تھا
مقتدر وہ تھے مگر نُطق و قلم کی حد
تلک
روح پہ میری کسی ذی روح کا قبضہ نہ
تھا
چاند کو تکتے ہوئے گذریں کئی راتیں
مگر
میرے ذہن و فکر میں تسکین تھی سودا
نہ تھا
وقت نے کیسے چٹانوں میں دراڑیں ڈال
دیں
رو دیا وہ بھی کہ جو پہلے کبھی رویا
نہ تھا
جانے کیوں دل سے مرے اسکی کسک جاتی
نہیں
بات گو چھوٹی سی تھی اور وار بھی گہرا
نہ تھا
چھوٹی چھوٹی رنجشیں اپنی جگہ پر شکر
ہے
نفرتوں کی آگ سے سینہ کبھی جُھلسا نہ
تھا
کس کی بد نامی کے چرچے ہو رہے ہیں شہر
میں
میں نے جب دیکھا تھا اس کو تب تو وہ
ایسا نہ تھا
کس لئے احباب نے تیروں کی زد پہ لے
لیا
میں نے تو دشمن کا بھی لوگو بُرا چاہا
نہ تھا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں