ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ197۔198
58۔ در پہ پڑے ہیں جب تک انعام ہو نہ جاوے
در پہ پڑے ہیں جب تک انعام ہو نہ جاوے
تیری جناب سے کچھ اکرام ہو نہ جاوے
یہ دل کی بستیاں تو تجھ سے ہی سجتیاں
ہیں
اِس گھر میں وسوسوں کا بِسرام ہو نہ
جاوے
ہر بات تجھ سے کُھل کر مَیں اس لئے
کروں ہوں
تا درمیاں میں حائل ابہام ہو نہ جاوے
چاہو ہو تم رقیباں ہنس بول مَیں نہ
پاؤں
یہ آرزو تمہاری ناکام ہو نہ جاوے
ہر قول و فعل پر تو لگ ہی چکی ہے قدغن
اب سانس لینا بھی یاں الزام ہو نہ جاوے
کافر گری نے ایسا کچھ رُوپ ہے نکالا
تسلیم سے گریزاں اسلام ہو نہ جاوے
مجھ سانس کی تپش سے ظالم جُھلس رہا
ہے
ایسا بھی کوئی نازک اندام ہو نہ جاوے
ہم غیر کی جفائیں ہنس ہنس کے سہہ رہے
ہیں
تا سِلسِلہ وفا کا بدنام ہو نہ جاوے
اَے چارہ گر جو تیری نظرِ کرم ہو ایدھر
ممکن ہے کیسے پھر جو آرام ہو نہ جاوے
اے یارِ دلرُبا تُو ناراض ہو نہ ہم
سے
ہستی ہماری وقفِ آلام ہو نہ جاوے
دو چار دن کی فرصت مشکل سے جو ملی ہے
ڈر ہے کہ وہ بھی نذرِ اوہام ہو نہ جاوے
دامن پکڑ کے تیرا ۔کرتے رہیں گے زاری
تا وقتیکہ ہمارا ہر کام ہو نہ جاوے
ڈرتے گذر گئی ہے ، ڈرتے گذار دیں گے
جب تک بخیر اپنا انجام ہو نہ جاوے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں