صفحات

جمعرات، 9 جون، 2016

79۔ ایک روشن اُجالا جلو میں لئے آرہی ہے سحر یہ تسلّی تو ہے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ248۔249

79۔ ایک روشن اُجالا جلو میں لئے آرہی ہے سحر یہ تسلّی تو ہے


ایک روشن اُجالا جلو میں لئے آرہی ہے سحر یہ تسلّی تو ہے
تیرگی مستقل رہنے والی نہیں رات ہے مختصر یہ تسلّی تو ہے

چھوڑ کے جس کو سرگرداں پھرتی رہی ایک دن لَوٹ کر پھر وہیں جائے گی
بہرِ ذہنِ بشر سانحہ ہی سہی بہرِ رُوحِ بشر یہ تسلّی تو ہے

میرے رب کی یہ دُنیا ہے کتنی حسیں چھوڑنا اس کو بے حد کٹھن کام ہے
پر وہاں بھی تو جنت کی رعنائیاں ہیں مِری منتظر یہ تسلّی تو ہے

راہ کھونے کا کھٹکا نہ رہزن کا ڈر ، اپنی منزل کی جانب بڑھیں بے خطر
وہ کہ ہر شئے پہ رکھتا ہے گہری نظر ، ہے وہی راہبر یہ تسلّی تو ہے

بے بہا مال و زر دولتیں بھی نہیں کوئی بھر پور آسائشیں بھی نہیں
پر سکون و محبت کا مسکن تو ہے میرا پیارا سا گھر یہ تسلّی تو ہے

ایسا انسان جس میں نہیں ہے ریا ، مجھ سے وابستہ رکھی ہے جس نے وفا
ذات کو میری جس نے تحفّظ دیا ہے مرا ہم سفر یہ تسلّی تو ہے

اُس کی باتوں پہ کیسے نہ آئے یقیں ایک مدّت ہوئی ہے پرکھتے ہوئے
ذات بھی محترم یہ بھروسہ تو ہے بات بھی معتبر یہ تسلی تو ہے

مجھ پہ برہم ہؤا ہے اگر وہ کبھی اُس کی باتیں گِراں بھی ہیں گذری مگر
برہمی بھی تو اُس کی ہے ظاہر ہوئی پیار کے مان پر یہ تسلّی تو ہے

اتنے رشتوں میں محصور ہو کے یہاں تلخیاں بھی ہوئیں، رنجشیں بھی ہوئیں
پر مَیں تنہا نہیں میری تکلیف میں جاگتا ہے شہر یہ تسلّی تو ہے

مجھ پہ سو سو فسانے بنائیں مگر میری شادی غمی میں یہی آئیں گے
میرے ماحول میں میرے اپنے ہیں سب قصّۂ مختصر یہ تسلّی تو ہے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں