صفحات

بدھ، 15 جون، 2016

55۔ جو بپتا دل پہ بیتی ہے وہ سامنے لاؤں تو کیسے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ190۔191

55۔ جو بپتا دل پہ بیتی ہے وہ سامنے لاؤں تو کیسے


جو بپتا دل پہ بیتی ہے وہ سامنے لاؤں تو کیسے
مَیں دَرد میں گذرے لمحوں کا احوال سُناؤں تو کیسے

تم شیش محل میں بیٹھ کے اپنی دید کرا تو دیتے ہو
مجھکو بھی بتاؤ مَیں شیشے کے اندر آؤں تو کیسے

ملنے کا مزا تو آتا ہے جب باہم مِل جُل بیٹھے ہوں
یہ بیچ میں جو دیوار سی ہے میں اُسکو گراؤں تو کیسے

تم خوشبو ہو جو ساتھ ہوا کے مجھ تک آن پہنچتی ہے
مَیں تم کو اپنے ہونے کا احساس دلاؤں تو کیسے

جن گلیوں میں تم پھرتے تھے وہ ساجن کھوج میں رہتی ہیں
اِن بیکل بیکل گلیوں کو بولو سمجھاؤں تو کیسے

نہ میری زباں ہی کُھلتی ہے نہ میرا قلم ہی چلتا ہے
پھر دل کے سچّے جذبوں کو تم تک پہنچاؤں تو کیسے

آواز تمہاری آتی ہے، دیدار تمہارا ہوتا ہے
پر دُوری کا احساس ہے جو میں اس کو مٹاؤں تو کیسے

یہ بالک ہٹ، یہ تریا ہٹ، یہ راجا ہٹ سب ہیچ لگیں
ہے منواہٹ سب سے بڑھ کے مَن کو بہلاؤں تو کیسے

آنکھوں میں گھٹائیں بند ہیں یوں اک قطرہ پانی نہ نکلے
سینے میں سُلگتی بھٹّی کی پھر آگ بجھاؤں تو کیسے

تم اُونچا اُڑنے والے ہو مَیں ایک شکستہ پر چِڑیا
جو منزل تم بتلاتے ہو وہ منزل پاؤں توکیسے

مَیں لاج کی ماری کونے میں گردن کو جھکائے بیٹھی ہوں
ہے سوچ یہی چھلنی چھلنی جھولی پھیلاؤں تو کیسے

آنکھوں کے اُجلے پانی کے چشموں میں روانی نہ ہو تو
اِس دھبّہ دھبّہ دامن کے مَیں داغ مٹاؤں تو کیسے

گر غور کروں تو اَور ہی اِک چہرہ دکھلائی دیتا ہے
مَیں دیکھ کے شیشہ خود سے ہی پھر آنکھ ملاؤں تو کیسے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں