ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ114۔116
27۔ پھر وہی رمزیں وہی گھاتیں
گو تمہارے گرد رہتا ہے ہزاروں کا ہجوم
چاہنے والوں کی رونق، جانثاروں کا ہجوم
نفس مٹی میں ملائے خاکساروں کا ہجوم
سب تڑپتے اور بلکتے بے قراروں کا ہجوم
جو تمہارے درد کو محسوس کر کے رو پڑیں
غم تمہارے بانٹتا ہے غمگساوں کا ہجوم
پھر بھی لگتا ہے مجھے کہ رازداں کوئی
نہیں
یوں بظاہر لگ رہا ہے رازداروں کا ہجوم
دل سے بھی پوچھا ذرا، کہتا ہے کیا؟
کیا یہ نہیں؟
گرچہ میں تنہا نہیں ہوں
پھر بھی میں تنہا ہی ہوں
ہے یہی انساں کی فطرت اس کو چاہت چاہئے
بے تکلف دوستوں کی بھی رفاقت چاہئے
حلقۂ احباب میں بھی ایک سے تو سب نہیں
ہم جلیسوں، ہم نواؤں کی بھی صحبت چاہئے
دل ہی ہے آخر تو تھک جاتا ہے بارِ فکر
سے
ہے طلب اس کی اسے تھوڑی سی فرصت چاہئے
نفس کا بھی حق ہے کچھ انسان پہ اس کو
بھی تو
تھوڑا سا آرام، تھوڑی سی فراغت چاہئے
پیار سے مجبور ہو تم، ہم بھی تو مجبور
ہیں
بس ہمیں بھی تو تمہاری پوری صحت چاہئے
دل سے بھی پوچھا ذرا، کہتا ہے کیا؟
کیا یہ نہیں؟
تم نے اپنے چاہنے والوں کا کیوں سوچا
نہیں
فرض ہے اپنی جگہ اور کام ہے اپنی جگہ
میری جاں پر حاجتِ آرام ہے اپنی جگہ
بے نیازی حسن کی تو دہر میں مشہور ہے
پھر بھی میرے عشق پر الزام ہے اپنی
جگہ
ہے ترے حرفِ تسلی کا بھی اک اپنا مقام
میرے دل میں کثرت اوہام ہے اپنی جگہ
کاش ہم بھی اہتمام گریۂ شب کر سکیں
گو دعا برلب، بہ ہریک گام ہے اپنی جگہ
میں نے اپنے دل سے جو پوچھا
تو کہتا ہے یہی
تم سے بھی تو حق محبت کا ادا ہوتا نہیں
گِرد اپنے اتنا پختہ نہ حصارِ ذات ہو
میری باتیں بھی سنو! مجھ سے بھی دل
کی بات ہو
کب کہا میں نے کہ نہ محبوب سے اپنے
ملو
دن کا کچھ حصہ مجھے دو نام اُس کے رات
ہو
مسکراہٹ کی بھی کچھ بجلی چمکنی چاہئے
یہ بھی کیا کہ بس فقط اشکوں کی ہی برسات
ہو
پھر وہی رمزیں، وہی گھاتیں، وہی چُہلیں
چلیں
پھر مری جھولی میں تیرے پیار کی سوغات
ہو
دل سے بھی پوچھا ذرا، کہتا ہے کیا؟
کیا یہ نہیں؟
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں