صفحات

اتوار، 19 جون، 2016

37۔ یہ مرا باپ ہے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ141۔143

37۔ یہ مرا باپ ہے


یہ جو تصویر ہے آپ کے سامنے
یہ مرا باپ ہے
ایک دہقاں ہے یہ
کام کرکر کے ظالم کڑی دھوپ میں
رنگ جھلسا ہوا
پاؤں پہ دھول کپڑے بھی ہیں ملگجے
کھیتی باڑی، مشینیں ہیں دو مشغلے
خدمتِ دین میں بھی یہ مشغول ہے
یہ مرا باپ ہے
دوستوں کے لئے ٹھنڈے اور میٹھے
پانی کی جوئے رواں
پَر غضب میں جو آئے تو آتش فشاں
اُس کی فطرت میں شعلہ بھی شبنم بھی ہے
خوش نوائی بھی ہے، لہجہ برہم بھی ہے
لیک اک بات ہے
کوئی شکوہ نہیں ہے شکایت نہیں
دل میں کینہ نہیں
عیب جوئی نہیں، نکتہ چینی نہیں
بدگمانی نہیں،
بے یقینی نہیں،
اُس میں شفقت بھی ہے
سخت گیری بھی ہے
خُوئے سلطانی شانِ فقیری بھی ہے
حوصلہ بھی ہے اس میں شجاعت بھی ہے
بے نیازی بھی، رنگِ محبت بھی ہے
وضع داری بھی ہے خاکساری بھی ہے
تمکنت بھی ہے اور انکساری بھی ہے
خیر خواہی بھی ہے بہرِ خلقِ خدا
بہرِ دینِ خدا جانثاری بھی ہے
عزم اور حوصلے میں تو یہ فردہے
آ ہنی مرد ہے
یہ مرا باپ ہے
کوئی کرتا ہے کیا؟
یہ نہیں جستجو
کوئی کہتا ہے کیا
دل پہ لیتا نہیں
محوِ ماضی نہیں
حال میں مست ہے
بود کا غم نہیں
قائلِ است ہے
فکرِ فروا نہ فکرِ کم و بیش ہے
مردِ درویش ہے
یہ مرا باپ ہے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں