ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ313۔314
106۔ آزمائش ہے
غلامانِ محمدّ مصطفےٰؐ کی آزمائش ہے
میانِ کربلا، کرب و بلا کی آزمائش ہے
دِلا یہ ابتلا کا دور ہے پر سوچ لے
اتنا
برائے مصطفےٰؐ تیری وفا کی آزمائش ہے
بہت ممکن ہے یہ بھی آج جھولی بھر کے
لے آؤں
میرے سوزِ جگر میری دُعا کی آزمائش
ہے
یہ وقتِ بے نوائی ہے یہ دورِ نارسائی
ہے
میرے مولا میری آہِ رسا کی آزمائش ہے
مسافر مطمئن ہیں کھیل طوفانوں کا ہے
جاری
ہے ساتھ اس کے خدا جس ناخدا کی آزمائش
ہے
خدا جس بات میں خوش ہے اسی میں ہم بھی
ہیں راضی
یہ میرے جذبہئ صبرو رضا کی آزمائش ہے
عمل پر میرے پہرے ہیں میرے ہونٹوں پہ
قدغن ہے
یہی نبیؐ
خدا کی آزمائش ہے
صداقت کے مقابل آ گیا ہے آج وہ کھل
کر
عدو کے مکروفن جور و جفا کی آزمائش
ہے
میرے جذبے سلامت ہیں میری امید زندہ
ہے
میرے اخلاص کی ذوقِ لقا کی آزمائش ہے
عدو کی فتنہ سامانی سے میں ہرگز نہیں
ترساں
یہ میری تو نہیںمیرے خدا کی آزمائش
ہے
میں تیرا نام بھی اپنے لبوں پر لا نہیں
سکتی
خداوندا یہ شوقِ برملا کی آزمائش ہے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں