صفحات

ہفتہ، 18 جون، 2016

40۔ مَیں ہُوں غلامِ قادرِ مطلق

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ149۔150

40۔ مَیں ہُوں غلامِ قادرِ مطلق


کیا کیا ادا و ناز دکھاتا ہوا گیا
کتنے دلوں پہ برق گراتا ہوا گیا

ماں باپ کا جہان میں وہ نام کر گیا
اُن کی جبیں پہ چاند سجاتا ہوا گیا

کم گو بہت تھا کچھ بھی زباں سے کہے بغیر
وہ داستانِ عشق سناتا ہوا گیا

مسجود سامنے تھا لہو سے وضو کیا
ہر قطرہ اپنے خوں کا بہاتا ہوا گیا

ہر قطرہ خون کا گل و لالہ میں ڈھل گیا
ہر گام پہ گلاب کِھلاتا ہوا گیا

وہ اپنی ہم سفر کو بڑی چھوٹی عمر میں
اک معتبر وجود بناتا ہوا گیا

کتنے دلوں کی ساتھ وہ تسکین لے گیا
اور ساتھ ہی سکوں بھی دلاتا ہوا گیا

اس خاندان کا وہ حسیں، دلربا سپوت
اس کا وقار و مان بڑھاتا ہوا گیا

مَیں ہُوں غلامِ قادرِ مطلق اُسی کا ہوں
ہر حال میں یہ عہد نبھاتا ہوا گیا

اک یارِ دلربا کے لبوں پہ ہیں اُس کے وصف
وہ رشک کے چراغ جلاتا ہوا گیا

گل رنگ پتیاں سی بکھرتی چلی گئیں
شہرِ وفا کی راہ سجاتا ہوا گیا

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں