ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ224۔226
69۔ جس دل کا واسطہ پڑا ہرجائیوں کے ساتھ
جس دل کا واسطہ پڑا ہرجائیوں کے ساتھ
سمجھوتہ اس نے کر لیا تنہائیوں کے ساتھ
تنہا مسافرت کی صعوبت نہ پوچھئے
رستے تو سہل ہوتے ہیں ہمراہیوں کے ساتھ
جو شہرتوں کے دور میں حلقہ بگوش تھے
وہ چھوڑتے چلے گئے رسوائیوں کے ساتھ
احباب کا تغا ِفل بے جا بھی ہے قبول
ان کے خلوص ، ان کی پذیرائیوں کے ساتھ
بندہ بشر ہوں میں ، سو ہیں مجھ میں
ہزار عیب
اپنائیے مجھے مری کوتاہیوں کے ساتھ
اہلِ خرد کو کوئی یہ باور کرا تو دے
نادانیاں بھی چلتی ہیں دانائیوں کے
ساتھ
اُس کا نہ دل سنے کبھی نوحوں کی آھٹیں
رخصت ہوئی ہے گھر سے جو شہنائیوں کے
ساتھ
کچھ سوچئے کہ کیوں نہیں کرتے اُسے قبول
کیا آپ ہی گئی تھی وہ بلوائیوں کے ساتھ
غیروں سے کیا وہ رسمِ محبت نبھائیں
گے
جو لوگ کہ نبھا نہ سکے بھائیوں کے ساتھ
اولاد بھی نہ پیار کے قرضے چکا سکی
جس کو کہ چاہا جاتا ہے سچائیوں کے ساتھ
بہتر یہی ہے دل میں رہے اُس کی ہی طلب
چاہو اُسی کو روح کی گہرائیوں کے ساتھ
اے حسنِ بے نیاز ادھر بھی نگاہِ لطف
آئی ہوں در پہ شوق کی پہنائیوں کے ساتھ
ہم سے ہے اجتناب تو غیروں پہ التفات
کیا یہ سلوک کرتے ہیں شیدائیوں کے ساتھ
اہلِ چمن کو فکرِ چمن کس طرح نہ ہو
خو ِف سمومِ غم بھی ہے پُروائیوں کے
ساتھ
آتے ہیں راستے میں کٹھن مرحلے کئی
ہوتی ہیں طے مسافتیں کٹھنائیوں کے ساتھ
ہیں زندگی کے راستے پُر پیچ تو مگر
منظر بہت حسین بھی ہیں کھائیوں کے ساتھ
دید و شنید کے تو مزے وقت لے اُڑا
بجھنے لگیں بصارتیں ُشنوائیوں کے ساتھ
یہ وہ ہی جانتا ہے کہ کیسے نبھائی ہے
لیکن نبھا گیا میری کجرائیوں کے ساتھ
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں