صفحات

منگل، 7 جون، 2016

87۔ کون سمجھائے کسی کو کیا ہے دردِ بے بسی

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ266۔267

87۔ کون سمجھائے کسی کو کیا ہے دردِ بے بسی


کون سمجھائے کسی کو کیا ہے دردِ بے بسی
وہ ہی جانے جو کہ خود سہتا ہے دردِ بے بسی

ہے یہی انسان کی اوقات اس کے ہاتھ میں
ہے اگر کچھ تو فقط تنہا ہے دردِ بے بسی

زندگانی کے سفر میں ساتھ کوئی دے نہ دے
ہمسفر اس راہ میں رہتا ہے دردِ بے بسی

ذہن کی اونچی اڑانیں اور بے بال و پری
کیسے کیسے دل کو تڑپاتا ہے دردِ بے بسی

دن کو تو اک حبس کا عالم رہا دل پہ مگر
رات کی تنہائی میں برسا ہے دردِ بے بسی

بے بسی کی کیفیت اپنی کروں میں کیا بیاں
بے بسوں کو دیکھ کے تڑپا ہے دردِ بے بسی

اُس کے دل کی کرچیاں میرے بھی دل میں چُبھ گئیں
جسکی آنکھوں میں نظر آیا ہے دردِ بے بسی

درد سب جاتے رہے سینے سے جب یہ آ لگا
چارۂ دردِ دگر حقّا ہے دردِ بے بسی

ایک اعلیٰ ذات کے در کا بتاتا ہے نشاں
بے وسیلہ جب مجھے پاتا ہے دردِ بے بسی

جب لپک کے اُس نے مجھ کو لے لیا آغوش میں
میں نے جانا نعمتِ عظمیٰ ہے دردِ بے بسی

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں