صفحات

اتوار، 5 جون، 2016

93۔ کُل سے اپنی ذات کے جُز کو جدا کیسے کروں

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ280۔282

93۔ کُل سے اپنی ذات کے جُز کو جدا کیسے کروں


کُل سے اپنی ذات کے جُز کو جدا کیسے کروں
خود کشی کرنے کا اپنی حوصلہ کیسے کروں

اپنے گرد و پیش میں محسوس کرتی ہوں تجھے
پھر تیرا انکار اے میرے خدا کیسے کروں

دید پہ مچلے ہوئے دل کی یہ ضد بھی خوب ہے
جس کو دیکھا ہی نہیں اُس سے وفا کیسے کروں

حسن کے جلوے تو ہیں اتنے حجابوں میں نہاں
پیار کا اظہار پھر میں برملا کیسے کروں

زنگ آلودہ جو دل ہے کس طرح صیقل ہو وہ
صاف کرنے کی اسے میں ابتداء کیسے کروں

ہوں بہت کمزور میں کیسے نبھاؤں عہد کو
آپ بتلائیں کہ تجدیدِ وفا کیسے کروں

بے نوائی، بے بسی، بے مائیگی، درماندگی
مالکا میں بندگی کا حق ادا کیسے کروں

ذہن و دل جکڑے ہوئے ہیں نفس کی زنجیر میں
قید سے اپنی ہی میں خود کو رہا کیسے کروں

میں شکستہ پَر یہاں اور آپ کی اونچی اُڑان
خود بتائیں طے میں اتنا فاصلہ کیسے کروں

کچھ نہ کچھ تو بے نیازی کا مری ہوگا قصور
دوستوں کی سرد مِہری کا گلہ کیسے کروں

جن کے دم سے زندگی کی محفلیں آباد ہیں
اُن سے ترکِ دوستی کا فیصلہ کیسے کروں

''زندگی نکلی مسلسل امتحاں در امتحاں''
سہل اس کی مشکلوں کا مرحلہ کیسے کروں

مجھ کو سجدے میں گرا دیتا ہے میرا اضطراب
مطمئن ہو جاؤں گر میں تو دعا کیسے کروں

کیا کروں چارہ کہ کھل جائے تیرا بابِ کرم
اپنے دردِ نارسائی کو رسا کیسے کروں

کتنے ہی کشکول اپنے سامنے رکھے ہوئے
سوچتی رہتی ہوں عرض مدعا کیسے کروں

سوزِ دل سے آخرش کیسے ہلاؤں عرش کو
خوں فشانی کس طرح، آہ و بکا کیسے کروں

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں