صفحات

جمعہ، 10 جون، 2016

72۔ ہربستی سے ، ہر وادی سے، ہر بن سے شرارے اُڑتے ہیں

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ232۔233

72۔ ہربستی سے ، ہر وادی سے، ہر بن سے شرارے اُڑتے ہیں


ہربستی سے ، ہر وادی سے، ہر بن سے شرارے اُڑتے ہیں
ہرصحن سے ، ہر روزن سے ، ہر آنگن سے شرارے اُڑتے ہیں

ہر شاخِ نشیمن جھلسی ہے، ہر طائر سہما سہما ہے
گل زخمی غنچے گھائل ہیں گلشن سے شرارے اُڑتے ہیں

ہم امن و سکون کے متوالے کس محفل میں آنکلے ہیں
ہر ذہن سُلگتی بھٹی ہے ہر من سے شرارے اُڑتے ہیں

جذبات کی شدّت اُف توبہ لفظوں میں آگ لگاتی ہے
ہو سوختہ دل فنکار اگر تو فن سے شرارے اُڑتے ہیں

جب سوز کی شدّت بڑھتی ہے اشکوں سے چھالے پڑتے ہیں
برکھا میں آگ برستی ہے ، ساون سے شرارے اُڑتے ہیں

کافور کی ٹھنڈک بھی ان سے نہ سوز و حرارت چھین سکی
سنتے ہیں کہ سوختہ جانوں کے مدفن سے شرارے اُڑتے ہیں

اس شہر میں روپ کا کال نہیں تم کس کی کھوج میں نکلے ہو
اس بستی کے تو ہر گھر کی چلمن سے شرارے اُڑتے ہیں

آہو چشماں، غنچہ دہناں، وہ گل بدناں، خوش پیرہناں
دیتے ہیں کلائی کو جنبش کنگن سے شرارے اُڑتے ہیں

جب ناز سے عشق مچل جائے، جب حسن تجلّی فرمائے
تب طور بھی لودے اُٹھتا ہے ، ایمن سے شرارے اُٹھتے ہیں

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں