صفحات

ہفتہ، 18 جون، 2016

43۔ تضمین بر اشعار ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ156۔159

43۔ تضمین بر اشعار ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام


آج پھر تثلیث نے توحید سے کھائی یہ مار
رفتہ رفتہ چَھٹ رہا ہے شرک و بدعت کا غبار
بتکدے سے دہر کے اُٹھتی ہے رَہ رہ کے پکار

''اے خدا ، اے کارساز و عیب پوش و کردگار
اے میرے پیارے ، میرے محسن ، مرے پروردگار''

دین احمدؐ پھر سے زندہ ہو گیا دنیا میں آج
''احمد ثانی نے رکھ لی احمدِ اوّل کی لاج''
علمِ قرآں کا ہوا پھر ذہنِ انسانی پہ راج

''آ رہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج
نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہہ زندہ دار''

معتبر ہونے لگی پھر زندگانی کی اساس
مُردہ روحوں میں جنم لینے لگی جینے کی آس
پا گئے پھر گوہرِ تابندہ کو جوہر شناس

''کس طرح تیرا کروں اے ذوالمِنَن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار''

بڑھ کے پھر اہلِ جہاں کو دعوتِ اسلام دو
تشنہ رُوحوں کو شرابِ معرفت کے جام دو
نفرتوں کی محفلوں میں پیار کے پیغام دو

''گالیاں سُن کے دعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار''

رحمتیں برسا رہا ہے آج بھی ربِّ رحیم
فضل اپنے کر رہا ہے ہر گھڑی مولا کریم
آج بھی دکھلا رہا ہے وہ صراطِ مستقیم

''وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار''

ایک جانب دشمنانِ دیں اور اُن کے دام ہیں
افتراء ہے ، کذب ہے ، بہتان ہیں ، الزام ہیں
دوسری جانب تیری رحمت کے جلوے عام ہیں

''تیرے اے مرے مربی کیا عجائب کام ہیں
گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار''

اُس کے دشمن خوار ہیں وہ کامیاب و ارجمند
پستیاں پہنچا سکیں کیا اہلِ رفعت کو گزند
حُسنِ دیں سے منحرف، آلالُشِ دنیا پسند

''سر پہ اِک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند
مرتے ہیں بے آب وہ اور در پہ نہر خوشگوار''

دیکھتے ہو تم ہمارے ساتھ کیا نصرت نہیں؟
ہم پہ کیا فضلِ خدا یا سایہ رحمت نہیں؟
جو نہ حاصل ہو ہمیں ایسی کوئی نعمت نہیں؟

''صاف دِل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کِردگار''

چشمۂِ صافی رواں ہے کر بھی لے اب دل کو صاف
عجز کی راہوں کو اپنا ، چھوڑ دے لاف و گزاف
ہیچ ہیں ورنہ نماز و روزہ و حج و طواف

''یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف
قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار''

اے خدا! ہر چیز میں جلوہ تیرا موجود ہے
تُو ہے لامحدود بس باقی سبھی محدود ہے
تیری خوشنودی ، تیری چاہت مرا مقصود ہے

اِس جہاں میں خواہش آزادگی بے سُود ہے
اک تیری قیدِ محبت ہے جو کردے رستگار''

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں