صفحات

اتوار، 5 جون، 2016

95۔ دکھ درد سے ہی زندگی پاتی رہی جِلا

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ285۔286

95۔ دکھ درد سے ہی زندگی پاتی رہی جِلا


دکھ درد سے ہی زندگی پاتی رہی جِلا
''پُرنم ہوئی جو آنکھ نگاہیں سنور گئیں''

جب تیرا قرب بھی مجھے تسکیں نہ دے سکا
مجھ پہ تو وہ بھی حشر کی گھڑیاں گزر گئیں

اپنی ہی ذات کا ہمیں عرفاں نہ ہو سکا
کیفیتیں شعور کی گرچہ نکھر گئیں

ہر سمت اُس کے حسن کے جلوے نظر پڑے
دیکھا اُسی کو میری نگاہیں جدھر گئیں

میری خطائیں جب تیرے غفراں نے ڈھانپ لیں
میری حیات کی سبھی راہیں سنور گئیں

یہ یک بہ یک نگاہ کرم کس طرح ہوئی
اُن کی نوازشیں مجھے حیران کر گئیں

یوں محفل سخن میں غزل خواں ہؤا کوئی
رعنائیاں خیال کی ہر سُو بکھر گئیں

اِک دوسرے کا ہم نے سہارا کیا قبول
یوں مشکلاتِ زیست کی گھڑیاں گذر گئیں

اُس رحمت اَتم کا درِ مغفرت کھلا
آہیں جو عرش پر مری شام و سحر گئیں

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں