ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ287۔288
96۔ یاں کوئی کسی کا مِیت نہیں دنیا کا
یہی دستور ہوا
یاں کوئی کسی کا مِیت نہیں دنیا کا
یہی دستور ہوا
پھر دل کیوں روگ لگا بیٹھا اِس کارن
کیوں رنجور ہوا
نہ موت تِری نہ زیست تِری نہ ہار تِری
نہ جیت تِری
ماٹی کے پُتلے بول ذرا کس بات پہ تو
مغرور ہوا
تاریکی تھی اندھیارا تھا اِک دُھند
سی چھائی رہتی تھی
اُس نے جو جلوہ دکھلایا تو ہر سُو نور
ظہور ہوا
سب اُس کے رہین منت ہیں یہ جام یہ صہبا
کیا کرتے
ساقی نے نظر کو جنبش دی نہ رند کوئی
مخمور ہوا
کس کس کا سوگ منائے گی کس کس کا روگ
لگائے گی
اِس جگ کی یہی ہے ریت سکھی یہ پاس آیا
وہ دور ہوا
دیکھا نہ کبھی ہوگا تم نے یارو کوئی
ہم سا دیوانہ
کہنے کو تو ویسے مجنوں کا قصہ بھی بڑا
مشہور ہوا
جلنے کو تو دونوں جلتے ہیں تقدیر کا
چکر دیکھو تو
''پروانے جلے تو خاک ہوئے اور
شمع جلی تو نور ہوا''١؎
ہونٹوں پہ مدھر مسکان لئے اک شخص تھا
بزمِ یاراں میں
دکھ کا نہ کسی کو بھید دیا، اندر سے
چکنا چور ہوا
بس اہلِ بصیرت ہی اس کے جلووں کا نظارا
کر پائیں
ہر چیز کو اپنا عکس دیا، خود پردے میں
مستور ہوا
شیشے کی طرح سے رکھا تھا پر دل کا مقدر
کیا کہیے
جو چوٹ لگی گہری ہی لگی جو وار ہوا
بھرپور ہوا
١؎ یہ مصرع نظر امروہوی کا ہے۔
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں