ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ136۔137
35۔ حضرت ّسیدہ آصفہ بیگم صا حبہ رحمہا
اللہ کی وفات پر
یک بیک کیا ہوا اِک جہاں رو دیا
کانپ اُٹھی زمیں، آسماں رو دیا
یہ تو محسوس کرنے کی ہی بات ہے
جس نے سمجھا یہ سوزِ نہاں رو دیا
بات کیسی سُنی دہنِ تقدیر سے
جو جہاں تھا بہ قلبِ تپاں رو دیا
ہاتھ میں پُھول تھامے تھا بیٹھا ہوا
جب وہ کملا گیا باغباں رو دیا
جب فنا کا مکمل یقیں ہو گیا
حُسن کی دیکھ رعنائیاں رو دیا
اُڑ گئی ایک دم بُلبُلِ خوش نَوا
خامشی چھا گئی، آشیاں رو دیا
ننھی کلیاں بھی ہیں سہمی سہمی ہوئی
شاخِ گُل جو کٹی گلستاں رو دیا
صبر کی سب کو تلقین کرتا ہؤا
گِر کے سجدوں کے وہ درمیاں رو دیا
دل تو آخر ہے دل یہ تو تڑپے گا ہی
جب بڑھیں اس کی بے تابیاں رو دیا
رکھ کے سینے پہ سنگِ گراں ہنس دیا
لے کے دل پہ وہ بارِ گراں رو دیا
آتشِ غم کو پانی کی حاجت تو تھی
دل سے اُٹھنے لگا جو دُھواں رو دیا
ہجر کی تلخیاں اَور بھی بڑھ گئیں
ہم یہاں روئے کوئی وہاں رو دیا
چُپ رہا جو بھرم ضبط کا رکھ لیا
چھیڑ دی جس نے یہ داستاں رو دیا
اُس کے دُکھ پہ نہ آنسو بہیں کس طرح
میرے ہر دُکھ پہ جو مہرباں رو دیا
راہبر حوصلے سب کو دیتا رہا
اُس کے دُکھ پہ مگر کارواں رو دیا
فرطِ غم سے زباں میری ساکت ہوئی
خامہ لرزاں رہا اور بیاں رو دیا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں