صفحات

ہفتہ، 11 جون، 2016

70۔ یہ بزمِ دنیا ہے آنا جانا تو اس میں یونہی لگا رہے گا

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ227۔229

70۔ یہ بزمِ دنیا ہے آنا جانا تو اس میں یونہی لگا رہے گا


یہ بزمِ دنیا ہے آنا جانا تو اس میں یونہی لگا رہے گا
نہ مجھ سے پہلے خلا تھا کوئی نہ بعد میں ہی خلا رہے گا

یہ میں نے مانا کہ بوجھ اپنا اٹھا کے چلنا ہے سب کو تنہا
پہ پھر بھی احباب ساتھ ہونگے تو دل کو کچھ حوصلہ رہے گا

محبتوں اور چاہتوں کا یہ مان ہی تو متاعِ دل ہے
اگر بھرم یہ بھی ٹوٹ جائے تو پھر مرے پاس کیا رہے گا

یہ کیسے ممکن ہے دوستو کہ تمہارے دکھ سے مجھے نہ دکھ ہو
تمہاری آنکھیں جو نم رہیں گی تو میرا دل بھی بھرا رہے گا

نہ وسوسوں سے فرار ممکن نہ فکر و اندیشہ سے مفر ہے
یہ مسئلوں کا جہاں ہے اس میں تو اِک نہ اِک مسئلہ رہے گا

قدم قدم پر نئے مراحل نئے مسائل کا سامنا ہے
میں بوجھ سارے سہار لوں گی جو ساتھ میرے خدا رہے گا

کچھ اپنے جذبوں کو بھی نکھاریں کچھ اپنے اعمال بھی سنواریں
سلف کا ایمان کب تلک ڈھال بن کے آگے کھڑا رہے گا

نہ صرف دنیا سے دل لگاؤ کہ عاقبت کی بھی فکر کر لو
قدم بھٹکنے نہ پائیں گے جو خیالِ روزِ جزا رہے گا

کبھی کسی زندگی کا دھڑکا، کبھی کسی کے فراق کا غم
یہ ایسا کانٹا ہے عمر بھر جو ہمارے دل میں چبھا رہے گا

محبتوں میں تو نفس کو مارنا، ہی پڑتا ہے لمحہ لمحہ
اگر اَنا بیچ میں رہی تو دلوں میں بھی فاصلہ رہے گا

اگر ہو وسعت دلوں میں پیدا ، تعلقات استوار ہوں گے
نہیں ہے لازم کہ جو بُرا آج ہے وہ کل بھی بُرا رہے گا

اگر ہم اپنی طرف بھی دیکھیں ، ہمارے طور و طریق کیا ہیں
تو اقرباء سے کوئی شکایت نہ دوستوں سے گِلہ رہے گا

اگر ہے اُس کی رضا کی خواہش تو خاکساری شعار کر لیں
ہماری گردن جھکی رہے گی تو بابِ رحمت کھلا رہے گا

ہمارے خونِ جگر سے ہوتی ہے اس گلستاں کی آبیاری
خلوص سے سینچتے رہے تو چمن وفا کا ہرا رہے گا

یہ آبگینہ چٹخ ہی جائے گا ایک دن ضربتِ زماں سے
کہاں تک اپنے تئیں سنبھالے ہوئے دلِ مبتلا رہے گا

ہموم دیمک سی بن کے انساں کو چاٹ لیتے ہیں رفتہ رفتہ
جڑیں ہی گر کھوکھلی ہوئی ہوں تو پیڑ کب تک کھڑا رہے گا

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

https://www.facebook.com/urdu.goldenpoems/

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں