ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ127۔130
31۔ حضرت سیدّہ اُمّ ناصرؓ کی یاد میں
آج کیوں ہیں اس طرح دل سب کے غمگین
و اُداس
کیوں فضائے ربوہ پر چھائے ہیں یہ یاس
و ہراس
گلشنِ ہستی پہ کیوں یہ غم کے بادل چھا
گئے
کون رخصت ہو گیا ایسے کہ آنسو آ گئے
یہ زمین مغموم ہے یہ آسماں افسردہ ہے
بات کیا ہے آج ہر خورد و کلاں آزُردہ
ہے
آج امی جان چل دیں ہم کو تنہا چھوڑ
کے
گلشنِ عالم سے اپنے سارے رشتے توڑ کے
زوجیت سن دو میں پائی مصلح موعود کی
آپ ہی پہلی بہو تھیں مہدئ مسعود کی
آئیں تھیں سن تین میں بن کر اِس گھر
میں دُلہن
بعد بچپن سال کے رخصت ہوئیں اوڑھے کفن
وہ جو گھبراتی ہمیشہ شب کی تاریکی سے
تھی
آج وہ ہے قبر کی مٹی تلے سوئی ہوئی
عزم و ہمت کا مرقّع رحم کا پیکر تھیں
وہ
صبرواستقلال کا اِک قیمتی گوہر تھیں
وہ
اُن کے دل میں موجزن احیائے دیں کا
جوش تھا
دین کی خاطر نہ بچوں کا نہ اپنا ہوش
تھا
اُن کے ہی ایثار سے الفضل تھا جاری
ہؤا
اُن پہ رکھ تو فضل کا سایہ ہمیشہ اے
خدا
صدرِ لجنہ ابتدا سے تادمِ آخر رہیں
ساری مستورات کی نظروں کامرکز آپ تھیں
آج تک دیکھا کبھی ہم نے نہ اُن کو خشمگیں
اس قدر صدمے سہے ماتھے پہ بل آیا نہیں
اے کہ تھی سرمایہ مہرو وفا اُن کی حیات
اے کہ بِن اُن کے نظر آتی ہے سُونی
کائنات
بعد کی نسلیں ہمیشہ آپ کو رکھیں گی
یاد
آپ کی یہ شفقتیں اور آپ کا صدق و سداد
آپ کے گھر کیسے کیسے صف شکن پیدا ہوئے
یہ بجا ہے گر کہوں فخر زمن پیدا ہوئے
منہمک ہیں روزوشب جو خدمت اسلام میں
دین کا پہلو عیاں ہے اُن کے ہر اک کام
میں
دیکھ کر غمگیں ہمیں بے تاب ہو جاتی
تھیں وہ
اپنی شیریں گفتگو سے ہم کو بہلاتی تھیں
وہ
عید کے دن اُن کے گھر میں جمع ہو جاتے
تھے ہم
زیست کے دلچسپ عنوانوں میں کھو جاتے
تھے ہم
اب خیالِ عید سے میرا لرز جاتا ہے دل
پچھلی باتیں یاد کر کے سخت گھبراتا
ہے دل
سوچتی ہوں شام کو اب کس جگہ جائیں گے
ہم
اپنی امی جان کو اب کس جگہ پائیں گے
ہم
لیک ہم شکوہ خدا کا لب پہ لا سکتے نہیں
راز کو آقا کے بندے اُس کے پا سکتے
نہیں
پا نہیں سکتے کبھی باتوں کو ہم افلاک
کی
شاید اس میں مصلحت ہو کچھ خدائے پاک
کی
ہے دعا حاصل ہو اُس کی روح کو عالی
مقام
اور اُس کی پاک ہستی پر ہوں لاکھوں
ہی سلام
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں