ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ240۔241
76۔ بر میں مرے موہن بھی ہووے چاندنی راتاں
بھی ہوں
بر میں مرے موہن بھی ہووے چاندنی راتاں
بھی ہوں
عشوے بھی ہوں ، غمزے بھی ہوں، رمزیں
بھی ہوں، گھاتاں بھی ہوں
نظریں اِدھر کو بھی ذری، دینے میں کیوں
دیری کری
اکھیاں ملاؤ مدھ بھری اور دان خیراتاں
بھی ہوں
چَھب دور سے دکھلائے ہے پھر اوٹ میں
ہو جائے ہے
جی بھر کے مکھڑا دیکھ لوں ایسے ملاقاتاں
بھی ہوں
نینوں کے درپن میں دِکھے، من کے گھروندے
میں رہے
بد رنگ ہاتھوں میں مرے وہ سوہنے ہاتھاں
بھی ہوں
سینہ تپے جو سوز سے تو ِنیر بھی جھرجھر
بہیں
اگنی بھی ہو، شعلے بھی ہوں، میگھا بھی،
برساتاں بھی ہوں
محفل سجائیں پیار کی کچھ تم کہو کچھ
مَیں کہوں
کچھ چونچلے چہلیں بھی ہوں، کچھ راز
کی باتاں بھی ہوں
اتنا نہ کھنچ ہم سے سجن، ٹوٹے نہ یہ
آشا کا مَن
تھوڑی مداراتاں بھی ہوں تھوڑی عنایاتاں
بھی ہوں
بس اپنے من ، بس اپنے تن، بس اپنے دھن
کی سوچ ہے
کیسے اسے دیکھے کوئی جو بیچ میں ذاتاں
بھی ہوں
کس بات پر اِترائے ہے مالک کو بُھولا
جائے ہے
اے کاش بندے کو کبھی یاد اپنی اوقاتاں
بھی ہوں
جینے کو بس وہ ہی جئے جو پریم کا مدھوا
پئے
من میں سجی ہو مورتی، لب پہ مناجاتاں
بھی ہوں
کیوں نہ رقیبوں کو مرے پھر مجھ سے چَوکھا
بیر ہو
جب اِس کنے جیتاں بھی ہوں اور اُس کنے
ماتاں بھی ہوں
اے اکبری! اے سروری! تجھ سے ہیں امیدیں
بڑی
دامن کی ہو بخیہ گری اور اس میں سوغاتاں
بھی ہوں
آنگن میں اترے چاندنی پھیلی ہوئی ہو
روشنی
چندا براجے تخت پر تاروں کی باراتاں
بھی ہوں
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں