ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ163۔165
45۔ تضمین بر اشعار ۔ حضرت مصلح موعودؓ
آآ! کے تجھے حال ذرا اپنا سنائیں
جو دل پہ ہمارے ہیں لگے زخم دکھائیں
جلووں کو ترے دیکھ کے تسکین بھی پائیں
''آآ! کہ تیری راہ میں ہم آنکھیں
بچھائیں
آآ! کہ تجھے سینے سے ہم اپنے لگائیں''
آپ آئیں تو پھر جھوم اُٹھیں ساری فضائیں
آپ آ کے زمانہ سے تکدّر کو مٹائیں
آپ آ کے یہ نفرت کے بھی ایوان گرائیں
''آپ آ کے محمدؐ کی عمارت کو
بنائیں
ہم کفر کے آثار کو دنیا سے مٹائیں''
یوں امتحاں اتنا نہ کڑا لیجئے آقا
نہ میری خطاؤں کی پکڑ کیجیئے آقا
بس اپنے ہی سائے میں پناہ دیجئے آقا
''رحمت کی طرف اپنی نظر کیجئے
آقا
جانے بھی دیں کیا چیز ہیں یہ میری خطائیں''
ہم لوگ ہمیشہ سے ہیں ہمرازِ تلطّف
جرأت ہے مری تیرا ہی اعجازِ تلطّف
یہ قول ہے اُس کا تھا جسے نازِ تلطّف
''میں جانتا ہوں آپ کا اندازِ
تلطّف
مانوں گا نہ جب تک کہ میری مان نہ جائیں''
اے میرے خدا نورِ فراست بھی عطا کر
ہم پیار کا چرچا کریں نفرت کو مٹا کر
وحدت کی طرف لائیں زمانے کو بلا کر
''ربوہ کو تیرا مرکزِ توحید بنا
کر
اِک نعرہ تکبیر فَلک بوس لگائیں''
اے کاش کہ یہ شہر رہے خُلد بداماں
ہو دَورِ صحابہ کا ہر اک نقش نمایاں
اس بستی کا ہر شخص ہے اس بات کا خواہاں
''جس شان سے آپ آئے تھے مکّہ
میں مری جاں
اک بار اُسی شان سے ربوہ میں بھی آئیں''
اے کاش کہ توفیقِ عبادت بھی عطا ہو
اور یوں ہو کہ مقبول ہر اک میری دعا
ہو
اللہ کرے ہم پر سدا فضلِ خدا ہو
''ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا
دعاگو
کعبے کو پہنچتی رہیں ربوہ کی دعائیں''
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں