صفحات

منگل، 14 جون، 2016

56۔ اہلِ دل پہ جو پہرے بٹھائے گئے اُن کے کچھ اور بھی مشغلے بڑھ گئے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ192۔194

56۔ اہلِ دل پہ جو پہرے بٹھائے گئے اُن کے کچھ اور بھی مشغلے بڑھ گئے


اہلِ دل پہ جو پہرے بٹھائے گئے اُن کے کچھ اور بھی مشغلے بڑھ گئے
جذبہ ہائے جنوں پہ نکھار آگیا ، دل جواں ہو گئے ، ولولے بڑھ گئے

یہ جنوں پیشہ لوگوں کا میدان ہے ، اہلِ دانش یہاں مات کھاتے رہے
دیکھتے رہ گئے صاحبانِ خرد اور آگے بہت منچلے بڑھ گئے

سُست رَو راہرو جانتے کیا نہیں؟ وقت کا کارواں کب رُکا ہے کہیں؟
جن کے بھی یاں ذرا ڈگمگائے قدم چھوڑ پیچھے اُنہیں قافلے بڑھ گئے

سہل انگاریاں نہ گراں خوابیاں دل میں بس قصدِ کوئے نگاراں کئے
آگ کی تال پر رقص کرتے ہوئے تپتے صحراؤں میں دل جلے بڑھ گئے

سوچ پہ اک اُسی کی حکومت تو تھی، فکر پہ اک اُسی کا اجارا تو تھا
جب سے محفل میں آئے ہیں اہلِ جنوں محتسب کے بہت مسئلے بڑھ گئے

باغباں خود گلستاں اجاڑا کئے اور کسی نے بھی بڑھ کے نہ روکا انہیں
اہلِ گلشن کی دیکھی جو یہ بے حِسی پھر تو گلچیں کے بھی حوصلے بڑھ گئے

خون کی ہولیاں ایسے کھیلی گئیں آسماں بھی لہو رنگ ہونے لگا
نفرتوں کے وہ لاوے اُبلنے لگے کہ زمیں ہل گئی زلزلے بڑھ گئے

ہمسفر جو بھی باہم اُلجھنے لگے رنجشوں کے لئے راستے کُھل گئے
اور اُن کا سفر جب شروع ہو گیا قربتیں گَھٹ گئیں فاصلے بڑھ گئے

ہے بجا دوستی ایک انعام ہے لیک اس کا نبھانا کٹھن کام ہے
جس قدر دوستوں کی پذیرائی کی اس قدر ان کے شکوے،گِلے بڑھ گئے

حال پوچھا نہ رُک کے کوئی بات کی ، یوں نفی کی اُنہوں نے مری ذات کی
یہ نہیں ہے کہ نظریں نہ مجھ پہ پڑیں چلتے چلتے نظر کی، وَلے بڑھ گئے

حاصلِ زندگی سوزِ پنہاں تو تھا کچھ تو اس کی حفاظت بھی کرنا ہی تھی
ضبطِ غم کا ہمیں جب نہ یارا رہا اس سے پہلے کہ آنسو ڈھلے ، بڑھ گئے

بے ثباتی تو تھی لیک یہ بھی نہ تھا کہ بتاشوں کی صورت چٹخنے لگیں
اب تو لگتا ہے یہ قلبِ انسان میں خون کم رَہ گیا بُلبُلے بڑھ گئے

اب مجھے تم مرے حال پہ چھوڑ دو ، دوستو فکرِ چارہ گری نہ کرو!
جتنی چارہ گروں نے عنایات کیں درد کے اور بھی سلسلے بڑھ گئے

حکم جب بھی جسے کوچ کا مِل گیا چھوڑ کر یہ سرائے وہ رخصت ہؤا
کچھ بھری دوپہر میں روانہ ہوئے اور باقی جو تھے دن ڈھلے بڑھ گئے

آگ بھڑکے تو کیسے بجھائے کوئی جو بجھانے کو پانی میّسر نہ ہو
سینہ جلتا رہا آنکھ نم نہ ہوئی اور یوں رُوح کے آبلے بڑھ گئے

وہ مسیحا نفس ، بُلبُلِ خوش لحن جانتا ہے وہ چارہ گری کے چلن
جب بھی اُس کے لبوں نے مسیحائی کی قلبِ بیمار کے حوصلے بڑھ گئے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں