ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ253۔254
81۔ کہہ رہی ہے شمع سے یہ سوختہ جانوں کی
راکھ
کہہ رہی ہے شمع سے یہ سوختہ جانوں کی
راکھ
اُڑتی ہے کوئے وفا میں تیرے پروانوں
کی راکھ
ابن آدم کی ترقی ہو رہی ہے اس طرح
ہر طرف بکھری ہوئی ہے قیمتی جانوں کی
راکھ
کیا تمہی ہو اشرف المخلوق کہتے ہیں
جسے
پوچھتی ہے آج انسانوں سے انسانوں کی
راکھ
اہلِ سطوت کے غرور و جاہ حشمت کیا ہوئے
درسِ عبرت دے رہی ہے اُن کے ایوانوں
کی راکھ
روزوشب تھیں گونجتیں جن میں کبھی شہنائیاں
آج نوحے کر رہی ہے اُن طرب خانوں کی
راکھ
شان و شوکت مٹ گئی اور جسم مٹی ہو گئے
ریگِ صحرا میں ملی کتنے ہی خاقانوں
کی راکھ
خامہ ہائے ظلم سے تحریر جو ہوتے رہے
ہم نے تو اُڑتے ہی دیکھی ایسے فرمانوںکی
راکھ
باغبانوں پہ ہے حیرت گلستاں لوٹا کیے
کتنے گل مسلے، اڑائی کتنے کاشانوں کی
راکھ
''آبلہ پائی مری سیراب کس کس
کو کرے''
میرے پاؤں سے لپٹتی کیوں ہے دیوانوں
کی راکھ
واعظا! تو نے جو میخانہ جلا ڈالا تو
کیا
ہے مئے دو آتشہ سے بڑھ کے پیمانوں کی
راکھ
اُس کی درگہ میں جو نہ کوئی رسائی پا
سکے!
دل کے شیشے پہ جمی ہے ایسے ارمانوں
کی راکھ
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں