صفحات

منگل، 21 جون، 2016

29۔ یہ تم نے کیا کِیا جاناں، یہ تم نے کیا کِیا جاناں

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ119۔123

29۔ یہ تم نے کیا کِیا جاناں، یہ تم نے کیا کِیا جاناں


یہ تم نے کیا کِیا جاناں! یہ تم نے کیا کِیا جاناں!
ابھی تو لوٹ کر آنے کا وعدہ بھی نبھانا تھا
ابھی تو شہر کی گلیوں میں بھی پھرنا پھرانا تھا
ابھی تو اپنی بستی کے گلی کوچے سجانا تھا
ابھی تو ہجر کے ماروں کی بھی ڈھارس بندھانا تھا
ابھی تو شعر کہنے تھے ابھی تو گنگنانا تھا
ابھی تو آنسوؤں کے ساتھ ہم نے مسکرانا تھا
ابھی تو مل کے ہم نے پیار کے نغمات گانے تھے
ابھی تو دل کے سارے داغ بھی تم کو دکھانے تھے
جو مثل ریگ ہاتھوں سے ہیں نکلے کیا زمانے تھے
یہ تم نے کیا کیا جاناں! یہ تم نے کیا کِیا جاناں!

ابھی تو رُوبرو ہم نے ملاقاتیں بھی کرنی تھیں
ابھی تو تم سے دل کی کتنی ہی باتیں بھی کرنی تھیں
ابھی تو ناز اٹھوانے، مداراتیں بھی کرنی تھیں
ابھی اہل وفا نے نذر سوغاتیں بھی کرنی تھیں
ابھی تو میری جاں ہم کو دعاؤں کی ضرورت تھی
ابھی تو دان تم نے ہم کو خیراتیں بھی کرنی تھیں
ابھی تو تشنگی دل کی مرے بجھنے نہ پائی تھی
ابھی تو پیار کی کچھ اور برساتیں بھی کرنی تھیں
تھے اس بستی کے باسی منتظر کہ چاند نکلے گا
منور نور سے ہم نے سیاہ راتیں بھی کرنی تھیں
ابھی تو چاندنی کو میرے آنگن میں اُترنا تھا
یہ تم نے کیا کِیا جاناں! یہ تم نے کیا کِیا جاناں!

یہ میری اور تمہاری پیاری بستی، زندہ دل بستی
کہ جس کے تم بھی شیدائی تھے جس کی میں بھی شیدا ہوں
اچانک ہی خبر ایسی سنی کہ ایسے لگتا ہے
کہ جیسے کوئی سایہ ہو گیا ہو یا کوئی جادو
اثر سے جس کے
ہر ذی روح پتھر بن کے رہ جائے
اگر تم دیکھ لیتے حال اس دم اپنی بستی کا
تو کتنے دل گرفتہ، کس قدر دلگیر ہو جاتے
مرے آنسو تمہارے پاؤں کی زنجیر ہو جاتے
اے کاش ایسا ہی ہو جاتا، اے کاش ایسا بھی ہو سکتا
نہ بازاروں میں سڑکوں پہ کوئی رونق نہ ہنگامہ
ہر اک سو ہُو کا عالم اور سناٹا سا طاری تھا
فسردہ صبحیں، غمگیں شامیں اور سہمی ہوئی راتیں
تھیں بس سرگوشیوں میں ہولے ہولے کرب کی باتیں
فقط بس سسکیوں کی سرسراہٹ تھی فضاؤں میں
اداسی رَچ گئی تھی میری بستی کی فضاؤں میں
یکا یک دی ندا ہاتف نے
ہلچل سی ہوئی پیدا
لی اس بستی نے انگڑائی دریچہ دل کا بھی کھولا
خدا کے فضل کا سایہ، خدا کے پیار کا جلوہ
سبھی اہل وفا کو اہل بینش کو نظر آیا
اُفق پہ روشنی ابھری، ستارہ ایک پھر چمکا
اُجالے کی کرن نے ہر اندھیرا ختم کر ڈالا
ہر اک مضطر کے دل پر اک سکینت سی ہوئی طاری
ہر اک کے لب پہ کلمہ ہائے حمد و شکر تھے جاری
''خدا دارم چہ غم دارم خدا داری چہ غم داری''
''خدا دارم چہ غم دارم خدا داری چہ غم داری'' ١؎
مگر میں کیا کروں جاناں مجھے تم یاد آتے ہو
تمہارے ساتھ کتنے چہرے یادوں میں چلے آئے
وہ اُجلے چاند چہرے
سوچ کر ہی جن کو میرے دل کی نگری میں اُجالا ہو
چراغاں ہی چراغاں ہو
مری جاں میں کبھی تم کو نہ ہرگز بھول پاؤں گی
میں پھر اک بار اپنے عہد کی تجدید کرتی ہوں
جو میں نے تم سے باندھا تھا نہ وہ پیمان توڑوں گی
میں محبوب حقیقی کا کبھی دامن نہ چھوڑوں گی
میں اُس کی قدرت ثانی سے ہرگز منہ نہ موڑوں گی
خدا تو فیق دے مجھ کو۔ خدا توفیق دے مجھ کو
میں آنے والے کے ہر حکم پر سر کو جھکاؤں گی
وفاؤں کے دئیے ہر گام پہ پل پل جلاؤں گی
یہ میرا تم سے وعدہ تھا
یہ میرا تم سے وعدہ ہے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں