ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ262۔263
85۔ کوئی پکارتا ہے یہ بوجھ تلے دبا ہوا
کوئی پکارتا ہے یہ بوجھ تلے دبا ہوا
میرا خدا کہاں گیا میرے خدا کو کیا
ہوا
خستگی کا یہ حال ہے سبکی نظر میں آ
گیا
دامن بھی ہے جو تار تار چاک بھی یہ
پھٹا ہوا
میرے سمندِ شوق کی کھینچی گئی زمام
بھی
میرے محلِ فکر پہ پہرہ بھی ہے لگا ہوا
ایسی چلی ہوا کہ یہ حالت انتشار ہے
نفس کہیں، نظر کہیں، دل ہے کہیں پڑا
ہوا
کیسی عجیب بات ہے چرکے لگا کے آپ ہی
دل کو تڑپتا دیکھ کے پوچھتے ہیں کہ
کیا ہوا
پوچھ رہا ہے آئینہ چہرہ یہ کیوں بدل
گیا
بگڑے ہوئے ہیں نقش بھی رنگ بھی ہے جلا
ہوا
وقت کے چکّروں میں تو گھوم گیا دماغ
بھی
نظریں بھی مضحل سی ہیں جسم بھی ہے تھکا
ہوا
تلخی گھلے کلام میں کوئی بعید تو نہیں
سینہ بھی ہے سلگ رہا ، ذہن بھی ہے تپا
ہوا
کس کو خبر کہ کون کون اس سے ہوا ہے
فیضیاب
دیمک زدہ سا پیڑ جو تنہا ہے اب کھڑا
ہوا
پنکھ پکھیرو اُڑ گئے زرد رُتوں کو دیکھ
کے
وہ جو کبھی تھا سَرو سا کیسا ہے اب
جُھکا ہوا
ٹیڑھی نظر سے دیکھتا غیر کی کیا مجال
تھی
تیری نظر کو دیکھ کے اُس کو بھی حوصلہ
ہوا
اُس سے کبھی ہمارے بھی گہرے تعلقات
تھے
گذرا ہے جو ابھی ابھی اجنبی سا بنا
ہوا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں