صفحات

ہفتہ، 4 جون، 2016

99۔ اَنا کو مارنے کا جب ارادہ کر لیا میں نے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ292۔293

99۔ اَنا کو مارنے کا جب ارادہ کر لیا میں نے


اَنا کو مارنے کا جب ارادہ کر لیا میں نے
تو فہم ذات کو صیقل زیادہ کر لیا میں نے

کسی کی تنگ نظری نے مجھے یہ فیض پہنچایا
کہ اوروں کیلئے دل کو کشادہ کر لیا میں نے

وفا کا لفظ ان کے لب سے کچھ ِاس شان سے نکلا
کہ حرزِ جان پھر یہ حرف سادا کر لیا میں نے

میری نادانیاں کہ بے نیازی دیکھ کر اُس کی
بتوں کو اپنے دل میں ایستادہ کر لیا میں نے

جھکاؤ دیکھ کر دنیا کی جانب سب یہی سمجھے
قطع اُن سے تعلق ہی مبادا کر لیا میں نے

تغافل لاکھ وہ برتے نہ یہ دہلیز چھوٹے گی
بس اپنے آپ سے یہ اب تو وعدہ کر لیا میں نے

شرابِ درد کی لذت بھی کیا ہے جب نشہ ٹوٹا
تو پھر سے اہتمامِ جام و بادہ کر لیا میں نے

اُتر آئے ہیں جب بھی زندگی میں میری سناٹے
تو پھر عہدِ محبت کا اعادہ کر لیا میں نے

''اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے''
یہی سب سوچ کے آسان جادہ کر لیا میں نے

کبھی خود کو سنبھالا کھا کے ٹھوکر تو کبھی لوگو!
تمہاری لغزشوں سے استفادہ کر لیا میں نے

جگر کے خون کے دھارے مری آنکھوں سے بہہ نکلے
لہو سے اپنے ہی رنگیں لبادہ کر لیا میں نے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں