صفحات

جمعہ، 3 جون، 2016

100۔ دوہے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ294۔295

100۔ دوہے


گدلے پانی میں تو چاند، ہی صاف دِکھے نہ پھول
ساجن درشن چاہے تو کر صاف تُو مَن کی دھول

بندہ، بندہ نہ رہے گر جو چاہے سو پائے
مالک، ہی وہ کاہے کا گَر اپنی نہ منوائے

کون کسی کا درد بٹائے لاکھ ہوں سجّن، مِیت
جس تَن لاگے سو تَن جانے جگ کی یوہی رِیت

مورکھ تو نے کاہے کو اپنوں سے باندھا بَیر
تجھ سے اچھا پیڑ کہ جس کی چھایا لیویں غیر

چاروں کُھونٹ ہے پھیلی لالی، خون کی آوے باس
جگ جنگل میں مانس نوچیں اک دُوجے کا ماس

بیٹھ کے لوگوں میں نہ چھیڑ تُو اپنے دُکھ کے راگ
ایسا نہ ہو ڈس لیں تجھ کو تنہائی کے ناگ

رُوپ جوانی لُوٹ کے لے گئے وقت سمے کے چور
بانکی نار بنی ہے پگلی دیکھ تو اپنی اور

منگتی در پہ آ بیٹھی ہے جھولی کو پھیلائے
اس آشا میں اس در سے کوئی خالی ہاتھ نہ جائے

کنگلے سے کوئی مانگے تو لاج سے لے منہ موڑ
اَن داتا کیوں مکھ موڑے اس کو کس شے کی تھوڑ

تو داتا تو اَن داتا تو ایشر تو بھگوان
ہر مورکھ پاپی کو بھی دیتا ہے تو ہی دان

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں