صفحات

جمعہ، 3 جون، 2016

101۔ بعض لوگ دنیا و مافیہا سے ناراض رہتے ہیں ایسے لوگوں کی خدمت میں

''جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے''

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ299۔302

101۔ بعض لوگ دنیا و مافیہا سے ناراض رہتے ہیں ایسے لوگوں کی خدمت میں


فرض کیجیے عرصۂ کون و مکاں اچھا نہ ہو
یہ زمیں اچھی نہ ہو یہ آسماں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے کہ پھولوں ہی میں نہ ہو رنگ و بو
فرض کر لیجئے نظامِ گلستاں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے چمن برقِ تپاں کی زد میں ہو
شاخِ گل جھلسی ہوئی ہو آشیاں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے کہ مٹی میں ہی زرخیزی نہ ہو
فرض کر لیجئے چمن کا باغباں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے کہ ہوں سب کے ہی گھر ٹوٹے ہوئے
فرض کر لیں آپکا ہی بس مکاں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے کہ اہلِ کارواں ہوں بے شعور
فرض کر لیجئے کہ میرِ کارواں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے شرابِ ناب ہی بے کیف ہو
فرض کر لیجئے کہ خود پیرِ مغاں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے خلوصِ دوستاں میں ہو کمی
فرض کر لیجئے سلوکِ دوستاں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے کہ ہوں الفاظ کے نشتر ہی تیز
فرض کر لیجئے کہ اندازِ بیاں اچھا نہ ہو

فرض کر لیجئے نہ ہو ہمدرد دنیا میں کوئی
فرض کر لیجئے کہ کوئی رازداں اچھا نہ ہو

تیری نظروں سے اگر دیکھوں تو اے کوتاہ چشم
یہ بھی ممکن ہے کہ کُل کارِ جہاں اچھا نہ ہو

تیرے تو نزدیک دنیا میں کوئی خوبی نہیں
خوبرویوں میں کوئی اندازِ محبوبی نہیں

اے گرفتہ دِل مجھے بس آج تو اتنا بتا
کیا بھری دنیا میں نہ کوئی بھی شے بھائی تجھے

چہچہے بھی کیا عنادل کے سنائی نہ دیئے
کیا نظر آئی نہ پھولوں میں بھی رعنائی تجھے

کیا شریکِ عیش بھی اس نے کبھی تجھ کو کیا
یا زمانے نے فقط تکلیف پہنچائی تجھے

دوستوں سے کیا تجھے دردِ تغافل ہی مِلا
یا ملی بھی ہے کبھی اُن سے پذیرائی تجھے

کیا تیرے در پر کبھی خوشیوں نے دستک ہی نہ دی
یا غمِ ہستی کی دنیا ہی پسند آئی تجھے

اے گلہ مندِ زمانہ کیا کبھی سوچا بھی ہے
سرد ِمہری خود تیری اِس موڑ پر لائی تجھے

دوستوں کو ہر جگہ بدنام تو کرتا رہا
بھولنے پاتی نہیں پر اپنی رسوائی تجھے

بھول جاتا ہے گھنے پیڑوں کی چھاؤں تو مگر
یاد رہ جاتی ہے اپنی آبلہ پائی تجھے

تیری پیشانی کی شکنوں سے یہ ہوتا ہے عیاں
محفلِ یاراں کی رونق راس نہ آئی تجھے

آپ ہی اپنا تماشا تو نے دِکھلایا اگر
تو نظر آئے گی دنیا بھی تماشائی تجھے

اے اسیرِ ذات اپنے نفس کا بندہ ہے تو
ڈس رہی ہے اِس لئے یہ تیری تنہائی تجھے

کھول کر آنکھیں کبھی روشن اجالوں کو بھی دیکھ
تب نظر آئے گی اس دنیا کی زیبائی تجھے

ذات سے باہر نکل کے ماورائے ذات دیکھ
نغمۂ کُن کی صدائیں سُن حسیں آیات دیکھ

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں