صفحات

جمعرات، 2 جون، 2016

107۔ اے وطن

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ315۔318

107۔ اے وطن


اے وطن تیری قسمت کہاں کھو گئی
تیری تقدیر مُنہ ڈھانپ کر سو گئی
کاش کوئی تو ہو جو جگائے اسے
سوچتی ہوں یہی
کیا یہی دیس ہے
کیا اسی کے لئے
اتنی جانیں 
خوں کی ندیاں بہیں
عصمتیں لُٹ گئیں ، عزتیں لٹ گئیں
دولتیں ، ثروتیں ، شوکتیں لُٹ گئیں
گردنیں کٹ گئیں
قربتیں بَٹ گئیں
کیا اِسی کے لئے ؟
اب بھی کیا حال ہے
عصمتیں ، عزتیں ، دولتیں ، ثروتیں
دین و مذہب کی تقدیس اور عظمتیں
کچھ بھی محفوظ ہے ؟ کچھ بھی محفوظ ہے؟
یاں زباں پہ ، عقائد پہ پہرے لگیں
دشمنوں کے مظالم کا کیا تذکرہ
زخم اپنوں کے ہاتھوں ہی گہرے لگیں
اے وطن تیرے کھیتوں کی ہریالیاں
تیری فصلوں کی یہ جُھومتی بالیاں
تیرے دریاؤں میں گو روانی بھی ہے
صاف و شفاف گو اِن کا پانی بھی ہے
تیرے کوہسار ہیں سر بُلند و حسیں
جگمگاتی تری وادیوں کی جبیں
میرے اہلِ وطن نے مگر اے وطن
تیرے چہرے پہ کیسی سیاہی ملی
دلکشی تیری سب خاک میں مل گئی
تیری آغوش میں جو پلے اور بڑھے
تیرے دُشمن ہوئے تیرے درپے ہوئے
کھوکھلے نعرے اِن کا وطیرہ رہا
اور ترا صحن تاریک و تیرہ رہا
درد کس کو ترا فکر کس کو تری
منتشر کارواں بے عمل رہبری
ہاں یہی تو ہیں جنکی عنایات سے
اور کرامات سے
جسم پہ تیرے ناسور بڑھتے رہے
تیرے چہرے پہ بھی داغ پڑتے رہے
اور یہ عیش پر عیش کرتے رہے
یا پھر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے
کون اِن سے کہے
کون ہے جو سُنے
اونچی اونچی عمارات ہی کچھ نہیں
لمبے چوڑے خطابات ہی کچھ نہیں
ِعظمت قوم ہے ُحسنِ کردار میں
حُسنِ اخلاق کی طرزِ اظہار میں
صرف باتوں ہی باتوں سے کیا فائدہ
کچھ عمل بھی تو ہو
سوکھی شاخوں سے پتوں سے حاصل ہے کیا
کوئی پھل بھی تو ہو
اے نگارِ وطن
تیرا سیمیں بدن
دلکشی ، بانکپن
جامہ زیبی پھبن
کچھ بھی باقی نہیں
سب کہاں کھو گیا
نقش اب بھی ہیں گو خوبصورت مگر
روپ چہرے کا چیچک زدہ ہو گیا
کون ہے اب جو تیرا مسیحا بنے
کون ہے؟

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں