ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ311۔312
105۔ میری ماں
ماں کی ممتا، چاند کی ٹھنڈک، شیتل شیتل
نُور
اس کی چھایا میں تو جلتی دھوپ بھی ہو
کافور
بچپن سے یہ درس دیئے کہ دُکھ نہ کسی
کو دو
اپنا درد چھپائے اس کا درد نہ جانے
کو
سُچی، صاف، کھری اور سچی اس کی ہر اک
بات
رہ میں بکھیرے اس کی اُجلی اُجلی ذات
وِیروں پہ قربان یہ اپنی بہنوں کی غمخوار
کوئی کرے یا نہ پر اس کے دل میں گہرا
پیار
فرض کا ہے احساس اسے تو رشتوں کی پہچان
اپنے بَنس کی لاج نبھائے ہر لحظ ہر
آن
غم کی آندھی آئے یا ہو مشکل کا طوفان
ہر بپتا کو ایسے جھیلے جیسے ایک چٹان
اس میں اَنا کا رُوپ بھی ہے خودداری
کی بھی شان
سر نہ جھکے بندے کے آگے اس کا ہے ایمان
یہ چاہے کہ اس کے دُکھ کو دوجا جان
نہ پائے
سب سو جائیں رات سمے یہ چُھپ چُھپ نِیر
بہائے
چہرہ ساکن سینے میں پر اٹھیں لاکھ اُبال
جانے والے چلے گئے پتھر میں دراڑیں
ڈال
مالک اس چھتناور پیٹر کی سدا رہے ہریالی
اس بَگیا کی خیر ہو داتا تو ہی اس کا
والی
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں