کلامِ
مختار ؔ
3۔ قصیدہ در شان حضرت امام الزماں مسیح موعود ومہدئ دوراں
بعض خدمات سلسلہ بجا لانے
کی غرض سے جن دنوں حضرت حافظ صاحب قادیان میں سکونت پذیر تھے توحضرت یعقوب علی
عرفانی ایڈیٹر "الحکم"نے حضرت حافظ صاحب کو حضرت اقدس بانی سلسلۂ عالیہ
احمدیہ کی شان میں قصیدہ لکھنے کی طرف توجہ دلائی جس کے جوب میں یہ لاجواب قصیدہ
منظر عام پر آیا۔یہاں ایڈیٹر صاحب "الحکم"کے نوٹ کے ساتھ شامل کتاب کیا
جاتا ہے۔
قصیدہ
دشمنوں کی یہ خواہش مجھے
دیکھیں ابتر
ازجناب حافظ سید مختار احمد
صاحب شاہجہانپوری
اس موضوع کو حضرت حافظ سید
مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری نے "الحکم"کے خاص نمبر کے لئے نظم
کیا ہے اور بتلایا ہے کہ دشمن کیا چاہتے تھے اور خدا نے کیا کیا۔چونکہ حافظ صاحب
نےاپنی گونا گوں مصروفیتوں اور بیماری کے باوجود یہ قصیدہ ہماری درخواست پر تصنیف
فرما کر مرحمت فرمایا ہے اس لئے خاص شکریہ کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔مدت ہوئی کہ
حافظ صاحب بعض خدمات سلسلہ انجام دینے کی غرض سے یہیں (قادیان میں )مقیم ہیں اور
چند روزاوریہیں قیام رہے گا۔(ایڈیٹر)
قطعہ
اخویم حضرت یعقوب علی
عرفانی
خیراندیش وفا کیش ومحبت
پرور
آپ نے مجھ سے کئی بار جو
فرمائش کی
اُسی اخلاص و توجہ کا ہے
یہ خاص اثر
ورنہ میرے لئے فی الحال یہ
موقع کب تھا
آپ کو بھی مری مصروفیتوں
کی ہے خبر
اور پھر شیب کے عالم میں
کہاں رنگِ شباب
نہ وہ تیزی ہے نہ وہ سیف ِ
زباں میں جوہر
ضعف سے دل ہی ٹھکانے ہے نہ
قابو میں دماغ
طائرِ فکر ہے ڈالے ہوئے
گویا شہپر
بحرِ ذخار مضامین سے ہو کس
طرح عبور
کشتئ طبع ِرواں جب ہو گستہ
لنگر
طائرِذہنِ رساسیرِ فلک
بھول گیا
کہ وہ ہے اورنگہبانی جائے
بستر
میں کہاں اور کہاں مشغلۂ شعروسخن
فقط ارشاد کی تعمیل ہے اے
نیک سیر
اب سے اڑتیس برس پہلے کی
ہو گی یہ بات
اپنے لفظوں میں سناتا ہے
جسے آج احقر
اللہ اللہ وہ اعجاز لب جاں
پرور
کلمہ پڑھنے لگیں جس سے
بتانِ آذر
خوش ترآں وقت کے تھا حاضرِ
خدمت میں بھی
آہ وہ مجلس پاک آج بھی ہے
پیشِ نظر
حسن الفاظ ومعانی سبب ِ
راحتِ روح
دل نشیں طرزِ سخن،لطف بیاں
وجد آور
اللہ اللہ وہ اندازِوقارِ
مجلس
اللہ اللہ وہ دلچسپ وہ
دلکش منظر
اس طرح حلقۂ خدام میں تھے
مہدئ دین
جلوہ گر محفلِ انجم میں ہو
جس طرح قمر
اللہ اللہ وہ نزول ِبرکات
وانوار
اللہ اللہ وہ کشوددرچرخ
اخضر
اللہ اللہ وہ حقائق وہ
معارف ،وہ نکات
اللہ اللہ وہ دہنِ شستہ
حوضِ کوثر
فرحتِ قلب سےحُضّار کی
نظریں روشن
صورتیں فرطِ مسرت سے برنگِ
گل تر
سن رہے تھے ہمہ تن گوش بنے
وہ تقریر
جس کے الفاظ تھے گل اور
معانی گوہر
کون تھا صاحبِ تقریر ؟مسیح
موعود ؑ
مہبطِ روح امین ،موردِ فضل
ِ داور
آپ نے اپنی صداقت کےدئیے
ایسے ثبوت
جن کو سن کر علماء و فضلاء
ہوں ششدر
فقرے فقرے میں وہ تاثیر کہ سبحان اللہ
روح سامع سے صد ااٹھتی تھی
بہتربہتر
بات یہ بھی اسی تقریر میں
پھر فرمادی
دشمنوں کی ہے یہ خواہش
مجھے دیکھیں ابتر
مشورے ہوتے ہیں آپس میں
یہی اُن سب کے
کہ مری راہ میں برپا کریں
کچھ فتنہ وشر
مفتری کوئی سمجھتا ہے تو
کوئی مجنون
کوئی ساحر مجھے کہتا ہے کو
ئی شعبدہ گر
آرزو ہےانہیں ہردم مری
بربادی کی
اسی کوشش میں اسی فکر میں
ہیں شام وسحر
لیکن اُن کی یہ تمنا نہ
برآئے گی کبھی
بلکہ وہ میری جگہ خود ہی
اٹھائیں گے ضرر
اس میں کچھ شک نہیں یہ بات
ہےلاریب درست
یہی قرآن میں ہے قولِ
خدائے برتر
فضل کرتا ہے خدااورتوسب پر
لیکن
مفتری کا نہیں ہوتا نہیں
ہوتا یاور
مفتری کا کبھی ہوتا نہیں
انجام بہ خیر
مرگ ناکامی وحسرت سے نہیں
اُ س کو مفر
مفتری کے لیے راحت کا نہیں
کوئی مقام
نارِحسرت یہاں اور وہاں
نارِسقر
اورجو ملہم ِصادق ہوپائےگا
فلاح
آخراُس کے لئے واہوں گے
درِفتح وظفر
اُس کو اندیشہ ء شمشیرمکذب
کیا ہے
کہ ہے صادق کے لئے ذاتِ
الہیٰ مغفر
میں جو کاذب ہوں تو پھر
کذب کی پاؤں گا سزا
اور صادق ہوں تو منکر کا
ہے انجام ابتر
کبھی مامور من اللہ نہ ہوگا ناکام
یادرکھیں ،اسے لکھ رکھیں
عدوئے خودسر
یہ تو سچ ہے کہ ابھی میری
جماعت ہے قلیل
اور اُس پر ہے طرہ غرباء
ہیں اکثر
اس کے افراد کوا غیار سے نسبت ہی نہیں
کہ نہ یہ صاحب طاقت ہیں نہ
یہ صاحبِ زر
اپنے ہی ضعف سے ہے اک
توسنبھلنا دشوار
اورپھردرپے تخریب ہے دنیا
یکسر
نت نئے فتنے اٹھاتا ہے
گروہِ علماء
ہرطرف آتشِ تکفیر کے اڑتے
ہیں شرر
مجھ سے برگشتہ وبرہم
اُمراء وروساء
مشتعل عامۃ الناس،مخالف
لیڈر
اِس طرف میرے موافق کہیں
دو ہیں کہیں ایک
اُس طرف دشمن خونخوارہیں
لشکر لشکر
حال ظاہر ہو جو ملحوظ تو
صورت یہ ہے
صیدِ لاغر ہو اِدھر اور
اُدھ شیرببر
باوجویکہ تناسب نہیں باہم
کچھ بھی
باوجویکہ بڑا فرق ہے دونوں
میں مگر
وقت آتا ہے کہ دی جائے گی
شہرت مجھ کو
وقت آتا ہے کہ دنیا کا
بنوں گا رہبر
ہرطرف میرے خیالات کوغلبہ ہوگا
زیر ہوجائیں گے وہ جو نظر
آتے ہیں زبر
میں ہوں اک شمع تہ سایۂ دستِ
قدرت
مجھ کو گُل کر نہیں سکتی
کبھی بادِ صرصر
میں وہ ذرہ ہوں کہ خورشید
ہے جس میں پنہاں
میں وہ قطرہ ہوں کہ رکھتا
ہے جو دریا دربر
وہ ترقی مجھے ملنی ہے کہ
اللہ غنی
آج اک تخم ہوں کل میں نظر
آؤں گا شجر
میرے ہی سایہ میں خلقت کو
ملے گا آرام
حیف اُس پر مری جانب جو
اٹھاتا ہے تبر
چند ہی روز میں پستی ہے
مبدل بہ عروج
دیکھتے دیکھتے بن جائے گا
ذرہ نیر
ہے یقینی مرے اقوال کا
پورا ہونا
کہ یہ ہیں وحی الہٰی سے نہ
ازرمل وجفر
سن لیا سب نے یہ
ارشادمسیحائے زماں
اب وہ سوچیں جنہیں ہو خطرۂ
روزِ محشر
مفتری پر کبھی کہیں فضلِ
خدا ہوتا ہے
کہیں اُس پر بھی کُھلا
کرتے ہیں الطاف کےدر
قولِ صادق یہ نہیں تھا تو
ہوا کیوں پورا
شاخ جو خشک ہو وہ بھی کہیں
لاتی ہے ثمر
تخم تھا سلسلۂ احمدیہ اب
ہے درخت
پہلے اصغر تھا تو اب فضلِ
خدا سے اکبر
پہلے قطرہ تھا تو یہ آج ہے
بحرِموّاج
پہلے ذرہ تھا تو اب صورتِ
مہر ِ انور
احمدی خدمتِ اسلام میں
رہتے ہیں دوان
سرعتِ سیر سے گویا ہیں
طلسمی پیکر
بہرِ تبلیغ کبھی روندتے
ہیں پشتِ زمیں
کبھی یہ چیرتے ہیں پھرتے
ہیں سمندرکا جگر
ایشیا میں یہ کبھی ہیں
کبھی ا مریکا میں
کبھی درپیش انھیں افریقہ ویورپ کا سفر
کہہ رہی ہےیہ پکارکے روش
مستانہ
"شیر قالین ہے دگر
شیر نیستان دیگر"
یہ بہرکیف ہیں مستِ مئے
عشقِ توحید
گو وہ کوئی سی بھی حالت ہو
سفر ہوکہ حذر
غیر ملکوں میں بھی اب
انجمنیں ہیں قائم
اس سے قطع نظر اسود ہوں کہ
ہوں وہ احمر
یہ حقیقت ہے کسی سے بھی جو چھپنے کی نہیں
خواہ وہ مولوی صاحب ہوں کہ
مسٹر ہوں کہ سَر
احمدی عرصۂ توحید میں ہیں
بےہمتا
آج اُن کا کوئی ثانی ہے نہ
کوئی ہمسر
نہیں اس میں کوئی گنجائش
تکرار نہیں
کہ زمانے میں ہے یہ بات من
الشمس اظہر
الغرض احمدیت پھیل چکی ہے
ہر سمت
لیکن اس پر بھی کسی کو جو
نہ آئے باور
تو پھر اس کے لیے اک سہل
سی تجویز یہ ہے
جو ہے بہر خس و خاشاک ِ
توہم اخگر
کہ وہ انصاف و خدا ترسی
وحق جوئی سے
اک ذرا دیکھ لے قول ظفر
سعد اختر
آپ بھی بادل ناخواستہ
فرماتے ہیں
آپ کو بھی ہے اقراربصد خوف
وخطر
ہند ہی تک نہ رہا سلسلۂ
احمدیہ
بلکہ اب غیر ممالک میں بھی
ہے اس کاگزر
ہیں اِدھر چین میں شاخیں
تو اُدھریوروپ میں
ہر طرف پھیل گیا احمدیت کا
شجر
چشمِ حیرت سے بحیرت نگراں
ہوں ہرسو
رگِ جاں کے لئے یہ بات ہے
گویا نشتر
آہ!پاتا تھا جنہیں عاقل و
دانا وفریس
صاحبِ فہم وذکا و خرد و
علم وہنر
وائے قسمت جو نظر آتے تھے
سرمایۂ ناز
اب وہ ہیں اور مئے احمدیت
کے ساغر
احمدی ہوکوئی اس کی نہیں
مجھ کو برداشت
یہ تو ہے میرے جگر کے لئے
اک تیر دوسر
کردیا ہے انہیں تیروں نے
کلیجہ چھلنی
آہ کچھ بن نہیں پڑتی مجھے
میں ہوں مضطر
جل گئے سوزدروں سے جگر ودل
دونوں
آتش غم نے بنا رکھا ہے
سینہ مجمر
اور چندے یہی حالت ہے تو
پھر خیر نہیں
کہ بنا دے گی مجھے نارِ
حسدخاکستر
اب ذرا سن لیں توجہ سے مرے
معروضات
وہ جو اس راہ میں ہیں
سربکف و سینہ سپر
احمدیت کی ترقی جو نہ روکی
ہم نے
امن سے کر نہ سکیں گے کہیں
اوقات بسر
یہ ہمارے لیے گویا ہے جگر
کا ناسور
یا بجھایا ہو ازہر آب میں
بُرانِ خنجر
ہوشیار اے مرے یارانِ
طریقت ہشیار
حذر اس خنجرِخونخوارسے سو
بارحذر
احمدیت کے تو سایہ سے بھی
لازم ہے فرار
ورنہ کھا لے گی ہمیں اس کی
تو ہے جوعِ بقر
اللہ اللہ وہی پیکرِ
کبرونخوت
وہی حاسد،وہی بدگو وہی بد
بیں واشر
جوشِ بدگوئی اڑائے لئے
پھرتا ہے جسے
لکھنؤ میں جو کبھی ہےتو
کبھی امرتسر
احمدیت کی ترقی سے جو ہے
یوں نالاں
جس طرح چیختی پھرتی ہو زنِ
بے شوہر
اور اس طرح جو ہوتا ہے
کبھی گرمِ فغاں
جس طرح مرگ ِپسرپر کوئی
بیوہ مادر
آتشِ بغض سے جس کا دل
بریاں ہے کباب
دے رہا ہے یہ شہادت وہی ناکام
ظفر
اے ذرا گور کریں وہ شرفائے
عالم
جو ہیں اہلِ خردو اہلِ دل
و اہل ِ بصر
یہ شہادت ہے ترقی کا ثبوت
ِ کامل
یا ابھی اس میں کسی قسم کی
باقی کا کسر
حق پسندوں کے لئے ہے یہ
دعائے مختار
دمبدم فضلِ الہٰی رہے سایہ گستر
(حیات حضرت مختار صفحہ 232-238)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں