کلامِ
مختار ؔ
7۔ رنج و الم کا اظہار بدرگاہِ کردگار
اے آہِ رسا غنچۂ مقصد کو
ہوا دے
سینے سے نکل عرشِ الٰہی کو
ہلا دے
اک صدمۂ جانکاہ سے ہوں
مضطرب الحال
وہ صدمۂ جانکاہ جو دیوانہ
بنا دے
سینہ ہے تپاں کانپ رہے ہیں
جگر ودل
وہ کشمکش غیظ ہے جو ہوش
اڑا دے
قابو میں نہیں جوش ِ غضب
سے دلِ بریاں
وہ جوشِ غضب سینے میں جو
آگ لگا دے
ہوں ہوش میں لیکن مجھے کچھ
ہوش نہیں ہے
وہ حال ہے جو دیکھنے والوں
کو رُلا دے
آنکھیں ہیں کھلی اور نظر
کچھ نہیں آتا
گویا کہ یہ ارض و فلک
اوراق ہیں سادے
زندہ ہوں مگر زیست کی اب
تاب نہیں ہے
روٹھے ہوئے ہیں مجھ سے مرے
دل کے ارادے
اے خون!بہت کَھول چکا بس
اب ابل جا
سوزِ تب اندوہ کی شدت کا
پتا دے
اے دیدۂ خوں بار!وہ طوفان
بپا کر
جو نوح کے طوفان کو نظروں
سے گرا دے
اے دل ! تو لہو بن کے مری
آنکھ سے بہ جا
اے جان!تو کس دن کیلئے ہے
یہ بتا دے
حملہ ہو شریف احمد ذی جاہ
پر افسوس
بے وجہ عدو ہم کو غمِ ہوش
رُبا دے
دل دل ہی تو ہیں برف کی
قاشیں تو نہیں ہیں
اتنا کوئی انصاف کے پتلوں
کو بتا دے
کیوں خنجر ِغم سے نہ ہو
ٹکڑے دلِ بیتاب
کیوں دیدۂ تر خون کا دریا
نہ بہا دے
کچھ حد بھی ہے ضبطِ الم
ودرد کہاں تک
یہ درد تو وہ ہے جو تہِ
خاک سلا دے
اس درد سے تاریک ہے نظروں
میں زمانہ
اس درد کی وہ جاننے والا
ہی دوا دے
اے قادروقدوس کہاں ہے تری
نصرت
دل درد سے بےچین ہیں اک
ہاتھ دکھا دے
اے غیرتِ حق وقت ہے فریاد
رسی کا
اعد اکو ستم گارئ اعدا کی سزا دے
انسان تو بن بیٹھے ہیں
بیگانۂ انصاف
اب تو ہی جواب ِستم و
جوروجفا دے
سب کثرت وقوت کے طرفدار
ہیں یارب
ہے تیرے سوا کون جو دادِ
ضعفا دے
تو بارشِ رحمت سے ہمیں
کردے شرابور
وہ آگ جو رہ رہ کے بھڑکتی
ہے بجھا دے
روکے جو رہ عشق سے دنیا نہ
رکیں ہم
یہ شوقِ رضا دے ہمیں یہ
جوشِ وفا دے
عالم میں شرافت ہے اک
انعام خداداد
یہ شے وہ نہیں جو کوئی
بازار سے لادے
دشوار ہے تبدیلئ اطوار
اراذل
ہر چند کوئی درسِ طریقِ
شرفا دے
اظہارِ رذالت پر اترآئے
ہیں اشرار
تو شرم حیا دے انہیں یا ان
کو مٹا دے
مختاربڑی دیر سے کچھ مانگ
رہا ہے
احباب کدا کے لیے کہہ دیں کہ خدا دے
(حیات حضرت مختار صفحہ 281-282)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں